البحث

عبارات مقترحة:

السلام

كلمة (السلام) في اللغة مصدر من الفعل (سَلِمَ يَسْلَمُ) وهي...

المتكبر

كلمة (المتكبر) في اللغة اسم فاعل من الفعل (تكبَّرَ يتكبَّرُ) وهو...

الجميل

كلمة (الجميل) في اللغة صفة على وزن (فعيل) من الجمال وهو الحُسن،...

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ نے رمضان میں آٹھ رکعات (تراویح کی) اور وتر پڑھائی۔ اگلے دن ہم پھر مسجد میں اکٹھے ہوئے اور ہمیں امید تھی کہ رسول اللہ ہماری طرف نکل کر (مسجد میں) آئیں گے لیکن صبح ہونے کی قریب آ گئی اور آپ باہر تشریف نہیں لائے۔ جب رسول اللہ ہمارے پاس آئے تو ہم نے کہا اے اللہ کے رسول! ہم اس امید پر تھے کہ آپ آئیں گے اور ہمیں نماز پڑھائیں گے تو آپ نے فرمایا: ’’میں نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ یہ وتر تم پر فرض کر دی جائے۔‘‘

شرح الحديث :

حدیث کا مفہوم: "صلَّى بِنَا رسول الله في رمضان ثَمَان ركعات والوِتر" (ہمیں رسول اللہ نے رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر (نماز) پڑھائی)۔ یعنی نبی کریم نے صحابہ کو رمضان میں مسجد کے اندر آٹھ رکعات نماز اور وتر پڑھائی۔ "فلما كان من القَابِلة" (جب اگلی رات آئی) یعنی اس کے بعد دوسری رات۔ "اجْتَمَعْنَا في المسجد" (ہم مسجد میں جمع ہو ئے) یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس امید پر پھر مسجد میں حاضر ہو ئے کہ نبی کریم آج پھر آئیں گے اور جیسے ہم نے کل نماز پڑھی تھی ویسے آج پھر پڑھائیں گے۔ اس لیے انھوں نے کہا "ورَجَونا أن يخرج إلينَا" (ہمیں امید تھی کہ آپ باہر ہمارے پاس تشریف لائیں گے) یعنی ان کو رات کی نماز پڑھائیں گے۔ "فلم نَزَلْ في المسجد حتى أصْبَحْنَا" (ہم مسجد میں رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی) یعنی صحابہ مسجد میں انتظار ہی کرتے رہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہو گئی۔ "فدَخلنَا على رسول الله " (ہم نبی کریم کے پاس گیے) یعنی وہ نبی کریم کے پاس آئے تاکہ آپ سے پوچھ سکیں کہ آج آپ نماز پڑھانے کے لیے تشریف کیوں نہیں لائے؟ "فقلنا له: يا رسول الله، رَجَوْنَا أن تخرج إلينَا فتصلِّي بِنَا" (ہم نے کہا اے اللہ کے رسول!ہم یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ آپ باہر تشریف لائیں گے اور ہمیں نماز پڑھائیں گے) یعنی ہم یہ تمنا اور امید لگائے بیٹھے تھے کہ آپ کل رات کی طرح آج پھر آئیں گے اور ہمیں (باجماعت) نماز پڑھائیں گے۔ آپ نے فرمایا: كَرِهت أن يُكتب عليكم الوِتر (میں نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ یہ وتر تم پر فرض کر دی جائے)۔ رسول اللہ نے اپنے نہ آنے کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ آپ کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ کہیں وتر بھی ان پر فرض نہ کر دی جائے۔ ایک روایت میں ہے: "خَشيت أن تُفرض عليكم" (میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ کر دی جائے) اور ایک روایت میں ہے "خَشيتُ أن تفرض عليكم صلاة الليل" (اس بات سے ڈر ا کہ کہیں قیام اللیل تم پر فرض نہ کر دیا جائے) یہ وہ سبب تھا جس کی وجہ سے آپ ان کے پاس تشریف نہیں لائے اور آپ کی امت کے ساتھ یہی وہ رحمت و شفقت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ان اوصاف کے ساتھ بیان فرمایا ہے ﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ﴾ [التوبة: 128] ترجمہ: ’’لوگو! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں۔ تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے بہت خواہشمند ہیں۔ اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے (اور) مہربان ہیں‘‘۔ اس حدیث کی اصل صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ ایک مرتبہ (رمضان کی) نصف شب میں مسجد تشریف لے گیے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیے۔ صبح ہوئی تو انھوں نے اس کا چرچا کیا۔ چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گیے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گیے۔ آپ نے (اس رات بھی) نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ کی اقتداء کی۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔(لیکن اس رات آپ باہر نکلے ہی نہیں) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نماز پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر (کلماتِ) شہادت کے بعد فرمایا۔ امابعد! تمہارے یہاں جمع ہونے کا مجھے علم تھا، لیکن مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ۔‘‘


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية