البحث

عبارات مقترحة:

المقيت

كلمة (المُقيت) في اللغة اسم فاعل من الفعل (أقاتَ) ومضارعه...

البصير

(البصير): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على إثباتِ صفة...

الرب

كلمة (الرب) في اللغة تعود إلى معنى التربية وهي الإنشاء...

ابو تمیم جیشانی فرماتے ہیں کہ: میں نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے اصحاب رسول میں سے کسی نے یہ بتایا کہ رسول اللہ نے فرمایا: «إن الله عز وجل زَادَكُمْ صلاة فصلُّوها فيما بَيْن صلاة العِشَاء إلى صلاة الصُّبح الوِتر الوِتر» (بے شک اللہ عزوجل نے تمہیں مزید ایک نماز عطا کی ہے اس کو نماز عشاء اور نماز فجر کے مابین ادا کرو اور وہ وتر ہے وتر ہے) خبردار! (جنھوں نے خبر دی) وہ ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ ہیں۔ ابو تمیم کہتے ہیں کہ میں اور ابو ذر دونوں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو ذر نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم ابوبصرہ کی طرف چل نکلے ۔ہم ان کے گھر کے دروازے پر آئے جو کہ عمرو بن عاص کے گھر کے ساتھ ہی تھا۔ ابو ذر نے کہا اے ابوبصرہ! کیا تو نے نبی کریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا؟«إن الله عز وجل زَادَكُمْ صلاة فصلُّوها فيما بَيْن صلاة العِشَاء إلى صلاة الصُّبح الوِتر الوِتر» (بے شک اللہ عزوجل نے تمہیں مزید ایک نماز دی ہے اس کو نماز عشاء اور نماز فجر کے مابین ادا کرو اور وہ وتر ہے وتر ہے)۔ فرمایا : ہاں۔ کہا کیا تو نے خود سنا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر کہا کہ کیا تو نے خود سنا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔

شرح الحديث :

حدیث کا مفہوم: ’’إن الله عز وجل زَادَكُمْ صلاة‘‘ (بے شک اللہ عزوجل نےتمہارے لیے ایک نماز زیادہ کی ہے) اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مزید ایک ایسی نماز دی تھی جس کو وہ پہلے اس کیفیت اور انداز سے نہیں پڑھتے تھے اور وہ وتر ہے۔ اور یہ بطور احسان وارد ہوئی ہے جیسا کہ فرمانِ رسول ہے: ’’إن الله فَرض عليكم الصلوات الخَمس ليؤجركم بها ويثيبكم عليها، ولم يَكتف بذلك، فشرع لكم التهجد والوتر؛ ليزيدكم إحسانا على إحسان‘‘۔ (اللہ تعالیٰ نے تم پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں تاکہ تمہیں اجر و ثواب سے نوازے لیکن اسی پر اکتفا نہیں بلکہ تمہارے لیے تہجد اور وتر کو بھی مشروع کیا ہے تاکہ تم پر مزید احسان پر احسان کرے)۔ "فصلُّوها " (لہذا، اس کو پڑھو) یہ حکم ہے اور قاعدہ یہی ہے کہ حکم وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ اس حدیث اور دیگر اس جیسی احادیث کے ظاہر سے اس نماز کا وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن بہت سارے صحیح اور صریح دلائل نے اس کو وجوب سے پھیر دیا ہے یعنی وتر کی نماز فرض نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد نماز وتر کی ادائیگی کے لیے وقتِ زمانی کا تعین کیا جوکہ : "فيما بَيْن صلاة العشاء إلى صلاة الصُّبح "(نماز عشاء اور نماز فجر کے مابین) یعنی نماز وتر کا وقت نماز عشاء سے فارغ ہوتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جب نماز عشاء پڑھ لی تو نمازِ وتر کا وقت شروع ہو جاتا چا ہے جمع تقدیم کرتے ہوئے عشاء کو مغرب کے ساتھ جمع کر لیا گیا ہو۔ اور اس کا آخری وقت طلوعِ فجر ہے۔ جب فجر طلوع ہو گئی نماز وتر کا وقت ختم ہو گیا، اوراگر وقت ہے تو اسے پورا کرے۔ پھر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ألا وإنه أبو بَصْرَة الغِفَاري" (خبردار! وہ ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ ہیں) یعنی جس نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو خبر دی تھی وہ ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ تھے۔ ابو تمیم کہتے ہیں کہ: فكنت أنا وأبو ذَرٍ قاعِدَين، قال: فأخذ بِيَدِي أبو ذَرٍّ فانطلقنا إلى أبي بَصْرة فوجدناه عند الباب الذي يَلِي دار عَمرو بن العاص (میں اور ابو ذر دونوں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو ذر نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم ابو بصرہ کی طرف چل نکلے ۔ہم ان کے گھر کے دروازے پر آئے جوکہ عمرو بن عاص کے گھر کے ساتھ ہی تھا) یعنی جب ان دونوں کو رسول اللہ کےحوالے سے یہ خبر ملی تو اس کی صحت کی تاکید کے لیے دونوں ابو بصرہ رضی اللہ عنہ کی طرف چل نکلے۔جب ان کی ملاقات ابو بصرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو ابو ذر رضی اللہ عنہ نے ان سے نبی کریم سے نقل کی جانے والی بات کی صحت کے بارے میں پوچھا "قال: نعم، قال: أنت سَمعته؟ قال: نعم، قال: أنت سمعته؟ قال: نعم. "(تو انہوں نے کہا : ہاں۔ کہا کیا تو نے خود سنا تھا؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ پھر کہا کہ کیا تو نے خود سنا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں)۔ انھوں نے نبی کریم سے نقل کرنے والی بات " إن الله زادكم صلاة" کے بارے میں تاکید کے ساتھ بتایا کہ یہ صحیح ہے۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية