القوي
كلمة (قوي) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) من القرب، وهو خلاف...
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ عہد رسالت مآب ﷺ اور ابو بکر و عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک (ایک مجلس کی) تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس معاملے (طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہیے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر لاگو کر دیا‘‘۔
اس حدیث میں یہ بتایا گیا کہ طلاق رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت کے ابتدائی دو برس تک ایسا تھا کہ جب کوئی ایک بارگی تین طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی اور وہ اس طور پر کہ کوئی آدمی کہے تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ تجھے تین طلاق ہے، یعنی تینوں کو ایک ساتھ جمع کر کے تو صحیح بات یہ ہے کہ یہ لغو ہے، اور اس کا کوئی اعتبار نہیں، بلکہ یہ ایک طلاق ہی ہو گی، لیکن جب لوگوں نے طلاق میں جلدی کرنا شروع کر دیا، اور کثرت سے طلاق دینے لگے اور اس معاملے میں کھلواڑ کرنے لگے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ لوگوں کو جلد بازی سے روکا جائے، چنانچہ انہوں نے ان تین طلاقوں کو جسے ایک سمجھا جاتا تھا اسے تین بنا دیا۔ علماء کہتے ہیں کہ تین طلاقیں جو عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تین واقع ہونے لگیں ان سے پہلے صرف ایک ہی طلاق واقع ہوتی تھی، کیونکہ وہ لوگ پہلے تین کا استعمال کرتے ہی نہیں تھے، اور شاذ ونادر ہی اس کا استعمال کرتے تھے لیکن عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ اس کا استعمال کثرت سے کرنے لگے اس لیے انہوں نے لوگوں پر اس حکم کو جاری کر دیا اور اسے تین بنا دیا۔