الوكيل
كلمة (الوكيل) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) بمعنى (مفعول) أي:...
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عبد بن یزید نے ـــــــ جو رکانہ اور اس کے بھائیوں کا باپ تھا ــــــــ ام رکانہ کو طلاق دے دی، اور ایک عورت جو مزینہ کے قبیلے میں سے تھی اس سے نکاح کیا۔ وہ عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور بولی یارسول اللہﷺ ابو رُکانہ میرے کام کا نہیں مگر اس بال کے برابر اور ایک بال اس نے اپنے سر کا پکڑا یعنی میری حاجت روائی اس سے نہیں ہو سکتی۔ لہذا میرے اور اس کے درمیان جدائی کرادیں، رسول اللہﷺ یہ سن کر گرم ہوئے اور رکانہ اور اس کے بھائیوں کو بلا بھیجا پھر آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا کیا تم فلاں لڑکے کو دیکھتے ہو کتنا مشابہ ہے ابو رکانہ سے؟ لوگوں نے کہا ہاں پھر آپﷺ نے عبد بن یزید سے کہا اسے طلاق دے دے، اور اُم رکانہ سے رجوع کرلے۔ ابو رکانہ نے کہا کہ میں نے اس کو تین طلاق دی آپﷺ نے فرمایا: میں جانتا ہوں ، تو اس سے رجوع کر لے، اور اس آیت کی تلاوت فرمائی: ﴿يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ﴾ الخ (اخیر آیت تک) [الطلاق: 1] ترجمہ: ’’اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود) نکلیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالی کوئی نئی بات پیدا کردے‘‘۔
عبد بن یزید نےجو رکانہ اور اس کے بھائیوں کا باپ تھا اپنی بیوی اُم رکانہ کو طلاق دے دی اور مزینہ کے قبیلے میں سے ایک عورت سے نکاح کیا وہ عورت رسول اللہ ﷺکے پاس آئی اور بولی یا رسول اللہﷺ! ابو رکانہ نامرد ہے اس کے پاس عورتوں سے ہمبستری کرنے کی طاقت نہیں۔ لہذا آپ میرے اور اس کے درمیان علیحدگی کرا دیں چنانچہ یہ سن کر رسول اللہﷺ بہت غصہ ہوئے اور آپ ﷺ کو غیرت آیا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے رکانہ اور اس کے بھائیوں کو بلابھیجا، پھر آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا: کیا تم رکانہ اور اس کے بھائیوں کو دیکھ رہے ہو شکل و صورت میں کس قدر مشابہ ہیں؟ یقیناً یہ سب اسی کی اولاد ہیں اور اس کی مردانگی میں کسی طرح کا شک و شبہہ نہیں جیسا کہ اُس کی قبیلہ مزینہ والی بیوی کا کہنا ہے۔ لوگوں نے کہا : ہاں ! آپ ﷺ نے عبد بن یزید سے کہا: اسے طلاق دے دو۔ اور ابو رکانہ سے آپ ﷺنےکہا کہ ام رکانہ اور رُکانہ کے بھائیوں کی ماں سے رجوع کرلو اس کو اپنی زوجیت میں واپس کر لو تو ابو رکانہ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے اس کو ایک مجلس میں تین طلاق دی ہے، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا : میں جانتا ہوں اس کو ایک مجلس میں تین طلاق دی ہے، لیکن ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق ہوتی ہیں، لہذا تو اس سے رجوع کر لے، اور اس آیت کی تلاوت فرمائی: ’’يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ‘‘ الخ (اخیر آیت تک) [الطلاق: 1] ترجمہ: ’’اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود) نکلیں ، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالی کوئی نئی بات پیدا کردے‘‘۔ اور مسند احمد میں ہے کہ رکانہ نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، جس کی وجہ سے بہت غمگین ہوئے، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق ہوتی ہے۔