الحفي
كلمةُ (الحَفِيِّ) في اللغة هي صفةٌ من الحفاوة، وهي الاهتمامُ...
عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کے بارے میں فیصلہ کیا جس نے کسی شخص کو پاؤں پر کسی سینگ سے مارا تھا۔ اس نے کہا اے اللہ کے رسول(ﷺ)!مجھے قصاص چاہیے۔ رسول اللہﷺ نے اسے فرمایا کہ جلدی نہ کرو پہلے اپنا زخم ٹھیک ہو لینے دو۔ اس نے انکار کیا اور قصاص کا مطالبہ کیا ۔رسول اللہﷺ نے اس کو بدلہ دلوا دیا۔ بدلہ لینے والا اس پر چڑھا اور اپنا بدلہ پورا کر لیاپھر یہ قصاص لینے والا رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ!میں لنگڑا ہو گیا اور میرا ساتھی ٹھیک ہو گیا؟رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اس وقت تک بدلہ نہ لو جب تک تمہارا زخم ٹھیک نہیں ہو جاتا؟ تم نے میری نافرمانی کی اللہ نے تجھے دور کر دیا اور تیرے زخم کو بگاڑ دیا۔اس آدمی کے بعد جو لنگڑا ہو گیا تھا، رسول اللہﷺ نے یہ حکم فرمایا کہ جس کو بھی کوئی زخم آئے تو وہ اس وقت تک قصاص نہ لے جب تک اس کا زخم ٹھیک نہیں ہو جاتا۔ جب زخم ٹھیک ہو جائے تو اپنا بدلہ لے لے۔
اس حدیث میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو سینگ سے مارا اور سینگ وہ ہڈی ہوتی ہے جو چوپایوں کے سر میں ہوتی ہے۔ اس نے نبی کریمﷺ سے اُس مار کا قصاص طلب کیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس کو زخم کے مندمل ہونے تک انتظار کرنے کو کہا کیونکہ کوئی پتہ نہیں تھا کہ یہ زخم مندمل ہوتا ہے یا نہیں، یا عضو پر اثر انداز ہو جائے یا اس کی جان پر اثر انداز ہو جائے اور انسان مر جائے۔اس نے انکار کیا اور قصاص میں جلدی کی۔ رسول اللہﷺ نے مجرم پر حد قائم کروا دی۔ مجرم قصاص کے بعد ٹھیک ہو گیا جب کہ قصاص کا مطالبہ کرنے والا لنگڑا ہو گیا۔ وہ رسول اللہﷺ کے پاس شکایت لے کر آیا تو رسول اللہﷺ نے وضاحت کی کہ تو نے قصاص میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا اور تاخیر پر راضی نہیں ہوا تھا، اس لیے تیری جو دیت بنتی تھی وہ حق تو نے وصول کر لیا۔ اس کی جلد بازی اور نبی کریمﷺ کے حکم کی نافرمانی پر آپ ﷺ نے اس کو ڈانٹتے ہوئے اس بات پر زور دیا اور زخم کے ٹھیک ہونے تک قصاص لینے میں تاخیر کا حکم دیا۔