الحيي
كلمة (الحيي ّ) في اللغة صفة على وزن (فعيل) وهو من الاستحياء الذي...
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا اور وہ رسول اللہ ﷺکے منبر پر تشریف فرما تھے بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی، اللہ نے آپ پر جو نازل کیا اس میں رجم کی آیت بھی تھی، ہم نے اسے پڑھا، یاد کیا اور سمجھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے بھی رجم کی سزا دی اور آپ ﷺکے بعد ہم نے بھی رجم کی سزا دی، مجھے ڈر ہے کہ لوگوں پر ایک لمبا زمانہ گزر جائے گا تو کوئی کہنے والا کہے گا: ہم اللہ کی کتاب میں رجم (کا حکم) نہیں پاتے، تو وہ لوگ ایسے فرض کو چھوڑنے سے گمراہ ہو جائیں گے جسے اللہ نے نازل کیا ہے اور بلاشبہ اللہ کی کتاب میں رجم (کا حکم) عورتوں اور مردوں میں سے ہر ایک پرجس نے زنا کیا، جب وہ شادی شدہ ہو ــــــــــــ برحق ہے۔ (یہ سزا اس وقت دی جائے گی،) جب شہادت قائم ہو جائے یا حمل ٹھہر جائے یا (زانی کی طرف سے) اعتراف ہو‘‘۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اور وہ اسلام ہے۔ آپ ﷺ پر بہترین کتاب نازل فرمائی اور وہ قرآن ہے جس میں آیت رجم بھی نازل کی گئی جو کہ شادی شدہ زانی کے لیے تھی، اس کے الفاظ کو قرآن میں سے منسوخ کر دیا گیا جب کہ اس حکم کو باقی رکھا گیا۔ ان کو یہ ڈر پیدا ہوا کہ بعد میں آنے والے لوگ قرآن کریم کے اس حکم کے منکر نہ ہو جائیں اس لیے اس کو بیان کر دیا ۔اور یہ بالکل برحق ہے کہ کوئی بھی شادی شدہ شخص جب زنا کرے اور اس کا نکاح صحیح ثابت ہو جائے یا وہ اپنے زنا کا اقرار یا اعتراف کر لے یا پھر بغیر شادی کے حمل وجود میں آ جائے یا پھر عورتوں کے معاملات کا کوئی ماہر یہ بتا دے کہ یہ شادی شدہ ہے تو اس کی سزا رجم ہے۔ یہ وہ امور ہیں جو زانی کے لیے رجم کی سزا کو ثابت کرتے ہیں۔