الحفي
كلمةُ (الحَفِيِّ) في اللغة هي صفةٌ من الحفاوة، وهي الاهتمامُ...
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب شام ہوتی، تو نبی ﷺ یہ دعائیہ کلمات کہتے: "أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ" ترجمہ: ہم نے شام کی اور اللہ کی بادشاہت کو دوام حاصل رہا۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ اکیلا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ ﷺ ان کے ساتھ یہ کلمات بھی کہتے: "لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، ربِّ أَسْأَلُكَ خَيْرَ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَخَيْرَ مَا بَعْدَهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَشَرِّ مَا بَعْدَهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكَسَلِ وَسُوءِ الْكِبَرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ "۔ ترجمہ: بادشاہی اسی کی ہے اور ہر قسم کی حمد بھی اُسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے میرے رب! میں تجھ سے اِس رات کی بھلائی چاہتا ہوں اور اُس کی بھی جو اس کے بعد ہے۔ اور اس رات کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اُس سے بھی جو اس کے بعد ہے۔ اے رب! میں سستی سے اور بڑھاپے کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے رب ! میں جہنم اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اور جب صبح کرتے، تو بھی یہی دعا پڑھتے، لیکن "أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ" فرماتے۔ترجمہ: ہم نے صبح کی اور اللہ کی بادشاہت کو دوام رہا۔
صبح و شام کے اوقات میں نبی ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ یہ مبارک دعائیں مانگا کرتے تھے۔ آپ ﷺ فرماتے: (أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ): یعنی ہم شام کے وقت میں داخل ہوئے اور اللہ کی بادشاہت کو دوام رہا اور وہ اسی کے لیے خاص ہے۔ (وَالْحَمْدُ لِلَّهِ) یعنی ہم شام میں داخل ہوئے اور تعریف سب کی سب اللہ ہی کے لیے ہے، یعنی شام کے آنے پر ہم نے جان لیا کہ بادشاہت صرف اور صرف اللہ کی ہے اور حمد کا سزاوار بھی صرف وہی ہے۔ (وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ) یعنی الوہیت میں وہ یکتا ہے۔ آپ ﷺ فرماتے: (اللهم إني أسألك من خير هذه الليلة) یعنی میں تجھ سے اس رات کی ذات کی بھلائی طلب کرتا ہوں۔ (وخير ما فيها) یعنی ہر اس شے کی بھلائی مانگتا ہوں، جو اس میں وجود میں آتی اور وقوع پذیر ہوتی ہےاور اس میں ٹھہرتی ہے۔ (وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها) یعنی راتوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور دین و دنیا کو لاحق ہونے والے ان کے شر سےتیری پناہ چاہتا ہوں۔ (اللهم إني أعوذ بك من الكَسَل) یعنی استطاعت کے ہوتے ہوئے بھی نیکیوں میں سستی سے پناہ چاہتا ہوں۔ ایسا تب ہوتا ہے، جب استطاعت کے با وجود نفس نیکی پر آمادہ نہ ہو۔ (والهَرَم) یعنی کبر سنی سے جس کی وجہ سے بعض قوائے جسمانی کام چھوڑ دیتے ہیں اور کمزور پڑ جاتے ہیں اور اس سے انسان عمر کے گھٹیا ترین دور میں پہنچ جاتا ہے: کیوںکہ اس عمر میں مقصد حیات یعنی علم و عمل دونوں چھوٹ جاتے ہیں۔ (وسوء الكِبَر) یعنی بڑھاپے اور سٹھیا جانے سے پناہ مانگتا ہوں۔ ایک روایت میں "الکبر" کی "با" ساکن ہے۔ اس صورت میں اس کے معنی ہو ں گے: نعمت کے حصول پر سرکش ہو جانا اور لوگوں پر بڑائی جتانا۔ بڑھاپے کی برائی سے مراد وہ اشیا ہیں جو کبر سنی سے پیدا ہوتی ہیں، جیسے عقل و دماغ کا خراب ہوجانا اور خبط میں مبتلا ہونا، نیک اعمال نہ کر سکنا اور اس طرح کی کسی اور ابتر حالت کا شکار ہونا۔ (وعذاب القبر) یعنی خود قبر کے عذاب سے یا پھر جن باتوں کی وجہ سے یہ ہوتا ہے، ان سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (وإذا أصبح) یعنی آپ ﷺ جب صبح کرتے، تو پھر بھی اسی طرح کہتے یعنی وہی کچھ کہتے، جو شام کو کہتے تھے، لیکن ''أمسينا و أمسى الملك لله''کی بجائے ''أصبحنا و أصبح الملك لله'' کہتے اور "الليلة" کو ''اليوم'' سے بدل دیتے اور فرماتے: اللهم إني أسالك من خير هذا اليوم۔ اور اس کے بعد دن کے ضمائر کو ذکر کرتے۔