السيد
كلمة (السيد) في اللغة صيغة مبالغة من السيادة أو السُّؤْدَد،...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے، تو جس وقت کھڑے ہوتے تکبیر کہتے تھے، پھر جس وقت رکوع کرتے تو تکبیر کہتے تھے، پھر رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھاتے، تو (سمع اللہ لمن حمدہ) کہتے تھے۔ پھر کھڑے ہونے کی حالت میں (ربنا ولک الحمد) کہتے تھے۔ پھر جب (سجدہ کے لئے) جھکتے تو تکبیر کہتے تھے، پھر جب (سجدے سے) اپنا سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے تھے، پھر جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے تھے، پھر جب (سجدے سے) اپنا سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے تھے۔ پھر پوری نماز میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ اس کو پورا کر لیتے۔ اسی طرح جب دو رکعتوں سے، بیٹھنے کے بعد، اٹھتے تھے (تب بھی) تکبیر کہتے تھے۔ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ نماز ادا کرتا ہوں۔‘‘
نماز پوری کی پوری قول و فعل کے ذریعے اللہ کی تعظیم پر مشتمل ہے۔ اس حدیث میں نماز کے شعار کا بیان ہے جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کا اثبات ہے۔ اللہ نے اس کو نماز کا شعار اور خصوصیت بنایا کیونکہ نماز مشروع ہی اللہ کی عظمت و بزرگی کے بیان کے لئے ہوئی ہے۔ چنانچہ جب آدمی نماز میں داخل ہوتا ہے تو وہ بالکل سیدھا کھڑا ہو کر تکبیر تحریمہ کہتا ہے۔ اور جب قراءت سے فارغ ہوتا ہے اور رکوع کے لئے جھکتا ہے تو تکبیر کہتا ہے۔ جب رکوع سے اٹھتا ہے تو "سمع اللہ لمن حمدہ" کہتا ہے۔اور پوری طرح سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے، پھر حالتِ قیام میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے۔ پھر سجدے میں جانے کے لئے جھکتے ہوئے تکبیر کہتا ہے، پھر جس وقت سجدے سے اپنا سر اٹھاتا ہے تب بھی تکبیر کہتا ہے۔ پھر وہ اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرتا ہے یہاں تک کہ اس سے فارغ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب دو تشہد والی نماز میں پہلی تشہد سے اٹھتا ہے تو کھڑے ہونے کی حالت میں تکبیر کہتا ہے۔ چنانچہ شارع علیہ السلام نے ہر انتقال کو تکبیر کے ساتھ مخصوص کیا ہے سوائے رکوع سے اٹھنے کے۔