البحث

عبارات مقترحة:

المبين

كلمة (المُبِين) في اللغة اسمُ فاعل من الفعل (أبان)، ومعناه:...

القهار

كلمة (القهّار) في اللغة صيغة مبالغة من القهر، ومعناه الإجبار،...

الواحد

كلمة (الواحد) في اللغة لها معنيان، أحدهما: أول العدد، والثاني:...

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: "مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ"۔

شرح الحديث :

مفہوم حدیث: مسلمان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی مونچھیں کاٹے اور چالیس دن سے زیادہ انہیں بغیر کاٹے نہ رہنے دے بشرطیکہ وہ بہت زیادہ نہ ہوجائیں۔ کیونکہ امام مسلم نے انس رضی اللہ سے روایت کیا ہے: "مونچھیں کترنے ، ناخن کاٹنے، بغل کے بال اکھاڑنے اور زیر ناف بال مونڈنےکے لیے ہمارے لیے وقت مقرر فرمادیاگیا۔ وہ یہ ہے کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں"۔ ابوداؤد کی روایت میں ہے: "رسول اللہ نے ہمارے لیے زیرِ ناف بال مونڈنے، ناخن کاٹنے اور مونچھوں کے بال کاٹنے کے لیے وقت مقرر فرما دیا"۔ امام احمد اور امام نسائی کی روایت میں آیا ہے کہ: "جس نے اپنی مونچھیں چھوٹی نہ کیں وہ ہم میں سے نہیں"۔ شیخ البانی نے کتاب 'الجامع الصغیر و زیادته' (2/1113) ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے۔ حدیث نمبر (6533)۔ چنانچہ اس سے مونچھ کا کچھ حصہ لینا ثابت ہوتا ہے چاہے ایسا اسے کاٹ کر کیا جائے یہاں تک کہ جلد کی سفیدی ظاہری ہوجائے یا پھر ہونٹ پر آ جانے والے اس حصے کو کاٹا جائے جس سے کھانا لگ جاتا ہے۔ " وإعفاء اللحية ": اہلِ لغت کے نزدیک 'لحية' سے مراد چہرے اور جبڑے پر اگنے والے بال ہیں یعنی رخساروں کے بالائی حصے اور گالوں پر اُگے ہوئے بال۔ یہ سب 'لحية' میں شامل ہیں۔ ان کے 'إعفاء' سے مراد ہے: انہیں گھنے ہونے دینا بایں طورکہ مرد نہ تو وہ انہیں مونڈے اور نہ ہی انہیں تھوڑا بہت کاٹ کر چھوٹا کرے۔کیونکہ 'إعفاء' کا لفظ کثرت اور بہتات کا معنی دیتا ہے چنانچہ مراد یہ ہے کہ انہیں زیادہ ہونے دو۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ بالوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور گھنے ہونے دیا جائے گا۔ رسول اللہ سے بہت سی ایسی احادیث مروی ہیں جن میں انہیں متعدد الفاظ کے ساتھ بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بعض اوقات "وفروا" کا لفظ آیا ہے، کبھی "أرخوا" کا لفظ اور کبھی "أعفوا" كا لفظ آیا ہے۔ یہ سب کلمات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انہیں اپنے حال پر رہنے دیا جائے، انہیں بڑھنے دیا جائے اور ان سے کچھ تعرض نہ کیا جائے۔فارسی لوگوں کی عادت تھی کہ وہ داڑھی کٹواتے تھے۔ شریعت نے اس سے منع کردیا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ: "مشرکین کی مخالفت کرو۔۔۔۔۔"۔ مشرکین کی مخالفت کرنے کی علت کے ساتھ یہ حکم داڑھی کو بڑھانے کے واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ مشابہت اختیار کرنے میں اصل یہی ہے کہ وہ حرام ہے ۔ رسول اللہ نے فرمایا: "جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے"۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية