الوارث
كلمة (الوراث) في اللغة اسم فاعل من الفعل (وَرِثَ يَرِثُ)، وهو من...
ابو ہريره رضى الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہوگا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی‘‘۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی“۔ "من دعا إلى هدى": یعنی جسے نے ہدایت کو لوگوں کے سامنے واضح کیا اور اس کی طرف انہیں بلایا۔ مثلا وہ لوگوں کو بتائے کہ چاشت کی دو رکعت نماز سنت ہے اور یہ کہ انسان کو چاشت کے وقت دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔ پھر اگر لوگ اس کی بات مان کر چاشت کی نماز پڑھنا شروع کر دیں تو اسے ان کے اجر کے برابر اجر ملے گا بغیر اس کے کہ اس سے ان کے اجر میں کچھ کمی ہو۔ کیونکہ اللہ کا فضل بہت وسیع ہے۔ یا پھر اس نے لوگوں سے کہا کہ رات کو وتر کو اپنی آخری نماز بناؤ اور وتر پڑھے بغیر نہ سویا کرو، سوائے اس شخص کے جو رات کے آخری حصے میں اٹھنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اسے چاہیے کہ وہ رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے۔ لوگوں نے اس پر اس کی اتباع شروع کر دی تو اسے ان کی طرح کا اجر ملے گا۔ یعنی جب بھی کوئی وتر پڑھے گا گویا اس شخص کو اللہ نے اس کے ہاتھ پر ہدایت دی اس لیے اسے اس کے برابر اجر ملے گا۔ اسی طرح دیگر نیک اعمال ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہوگا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی“ یعنی جب اس نے کسی گناہ یا پھر ایسے کام کی طرف دعوت دی جس میں گناہ ہو مثلا وہ لوگوں کو لہو لعب و لغو، گانے بجانے یا سود وغیرہ جیسے حرام اشیاء کی طرف بلائے تو اس صورت میں جو انسان بھی اس کی دعوت سے متاثر ہو گا ان کا گناہ اس کے کھاتے میں بھی لکھا جائے گا کیونکہ اس نے گناہ کی دعوت دی تھی۔ ہدایت اور گناہ کی طرف دعوت قول کے ذریعے بھی ہوتی ہے جیسے وہ کہے کہ تم اس طرح کرو یا تم ایسے کرو، اور فعل کے ذریعے بھی ہوتی ہے بطورِ خاص لوگوں میں سے اس شخص کے فعل سے جس کی اقتداء کی جاتی ہو۔ اگر وہ شخص ایسا ہو جس کی اقتداء کی جاتی ہو اور وہ کوئی کام کرے تو وہ گویا لوگوں کو اپنے اس فعل کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس وجہ سے کہ لوگ اس کے فعل کو دلیل بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلان نے ایسا کیا اس لیے یہ کام جائز ہے یا فلاں نے اس کام کو چھوڑ دیا چنانچہ یہ (اس کا چھوڑنا) جائز ہے۔