الكريم
كلمة (الكريم) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل)، وتعني: كثير...
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ پروردگار! مجھے کوئی ایسی چیز سکھلا دے جس کے ذریعہ میں تجھے یاد کروں اور تجھ سے دعا مانگوں، اللہ تعالی نے فرمایا موسیٰ ”لا الہ الا اللہ“ کہو !موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا میرے پروردگار ! تیرے تمام بندے یہ کلمہ کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ اگر ساتوں آسمان اور میرے علاوہ ان کے سارے مکین اور ساتوں زمین ایک پلڑے میں رکھی جائیں اور ”لا الہ الا اللہ“ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو یقیناً ان چیزوں کے پلڑے سے ”لا الہ الا للہ“ کا پلڑا جھک جائے‘‘۔
موسی علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے یہ مطالبہ کیا کہ انہیں کوئی ایسا ذکر سکھائیں کہ جس کے ذریعہ وہ اس کی ثنا بیان کر سکیں اور اس کے قریب ہو سکیں، چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں ”لا الہ الا اللہ“ کا ورد سکھایا، موسی علیہ السلام یہ جانتے تھے کہ یہ کلمہ اکثر مخلوق کی زبان پر ہوتا ہے، وہ تو یہ چاہ رہے تھے کہ ان کے لیے کوئی ذکر مخصوص کیا جائے جس سے وہ دوسروں سے ممتاز رہیں، تو اللہ عزوجل نے انہیں اس ذکر کی عظیم فضیلت کی طرف نشان دہی فرمائی یہ کہ کوئی شئے اس کی فضیلت کی برابری نہیں کر سکتی اور یہ بتایا کہ یہ ذکر کا کلمہ اگر ترازو کے ایک پڑلے میں رکھ دیا جائے اور دوسرے پڑلے میں ساتوں آسمان اور اس کے مکین سوائے اللہ کے اور ساتوں زمین اپنی عظمتوں کے ساتھ رکھ دیے جائیں تو بھی ”لا الہ الا اللہ“ کا پڑلا وزنی ہو جائے گا، اس لیے کہ یہ کلمہ ہر دین وملت کی اساس واصل ہے۔ یہ حدیث در اصل ضعیف ہے لیکن ”لا الہ الا اللہ“ کا سب سے افضل کلمہ ہونا ثابت وصحیح ہے، امام بخاری نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث تعلیقًا نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افضل کلام چار ہیں، سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہٰ الا اللہ، اللہ اکبر“۔ اور امام احمد نے عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے (طلحہ رضی اللہ عنہ سے) کہا: ”وہی کلمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا یعنی کلمہ ”لاالہ الا اللہ“ کی گواہی، طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا: ”اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے افضل بھی کوئی کلمہ جانتے ہوتے تو اپنے چچا کو اس کا حکم دیتے“۔