الفتاح
كلمة (الفتّاح) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعّال) من الفعل...
سعید بن مسیب سے روایت ہے انہوں نے اپنے باپ مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، انہوں نے کہا جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، ان کے پاس اس وقت عبداللہ بن ابی امیہ اور ابو جہل موجود تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ ”لا إله إلا الله“ (اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں) کہہ دیں تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ ﷺ برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔انہوں نے ”لا إله إلا الله“ کہنے سے انکار کردیا، پھر بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا تاآنکہ مجھے منع نہ کردیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ”مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قربى.“ نازل فرمائی۔(پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وه رشتہ دار ہی ہوں) اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب فرماتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی: ”اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ“۔ (آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے)۔
نبی ﷺ نے ابو طالب کی جانکنی کے وقت عیادت کی اور آپ ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی، تاکہ ان کی زندگی کا خاتمہ اسلام پر ہو اور اس کے ذریعہ انہیں فلاح اور سعادت حاصل ہو جائے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے ان سے کہا کہ کلمہ توحید پڑھ لیں جب کہ مشرکین نے اپنے آبائی دین یعنی شرک پر قائم رہنے کی پیشکش ان سے کرتے رہے، چونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ یہ کلمہ، شرک کی نفی کرتا ہے اور ہر قسم کی عبادت صرف اللہ ہی کے لیے خاص کرتا ہے، نبی ﷺ نے اپنے چچا ابوطالب سے دوبارہ فرمایا: اے چچا! تم کلمہ شہادت کہہ لو اور مشرکین بھی اپنی پیشکش کرتے رہے چنانچہ یہ مشرکین انہیں حق سے روک دینے اور شرک پر وفات پانے کا سبب بنے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اب میں اللہ تعالی سے تمہارے لیے اس وقت تک دعا کرتا رہوں گا جب تک کہ مجھے منع نہ کر دیا جائے، تو اللہ تعالی نے اس سے منع کرتے ہوئے آیت نازل فرمائی اور یہ بیان کر دیا کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے عنایت کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کون اس کے لائق ہے اور کون اس کے لائق نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: ” مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ“۔ (سورہ التوبہ: 113)۔ ترجمہ: نبی اور دوسرے مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگر چہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔ اور ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی: ”إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ“۔(سورہ القصص: 56) ترجمہ: آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالی ہی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے، ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے۔