المعطي
كلمة (المعطي) في اللغة اسم فاعل من الإعطاء، الذي ينوّل غيره...
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "آدمی سے نہیں پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی بیوی کو کس وجہ سے مارا؟"۔
اس حدیث کا تعلق اللہ تعالی کے اس فرمان سے ہے: "وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا (النساء: 34)"۔ ترجمہ: اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمھیں خوف ہو، انھیں نصیحت کرو اور انھیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انھیں مار کی سزا دو، پھر اگر وه تابع داری کریں، تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی واﻻ ہے۔ چنانچہ مارنا آخری درجہ ہے۔ بعض اوقات آدمی اپنی بیوی کو کسی ایسی بات کی وجہ سے مارتا ہے، جسے بیان کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ ایسے میںاگر کسی کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ اللہ کا خوف رکھتا ہے اور وہ اپنی بیوی کو مارے، تو اس سے (اس پٹائی کے متعلق) باز پرس نہیں ہوگی۔ البتہ جو بد سلوک ہو، اس سے پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی بیوی کو کیوں مارا؟ کیوں کہ اس کے اندر اللہ کا وہ تقوی نہیں پایا جاتا، جو اسے اپنی بیوی پر ظلم کرنے اور اسے ناحق مارنے سے باز رکھے۔ یہ حدیث ضعیف ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔