المتكبر
كلمة (المتكبر) في اللغة اسم فاعل من الفعل (تكبَّرَ يتكبَّرُ) وهو...
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کسی عورت کو بوسہ لے لیا۔ (احساس ندامت سے مغلوب ہو کر) وہ آپﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ کواس کے بارے میں بتایا ۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ’’وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات‘‘۔ (هود: 114)۔ ترجمہ: دن کے دونوں سِروں میں نماز قائم کرو اور رات کی کئی گھڑیوں میں بھی، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ اس شخص نے پوچھاکہ کیا یہ صرف میرے لیے ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ "یہ میری ساری کی ساری امت کے لیے ہے "۔
مفہوم حدیث: ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص جس کا نام ابویسر تھا ایک اجنبی عورت کا بوسہ لے بیٹھا اور پھر اپنی اس غلطی پر پشیمان ہوکر نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اورجو کچھ ہوا تھا وہ سب آپﷺ کو بتا دیا۔ اس پر اللہ تعالی نے اس کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی کہ "أقم الصلاة طرفي النهار" یعنی حکم دیا کہ دن کے دونوں اطراف میں جو نمازیں ہیں یعنی صبح ، ظہر اور عصر انہیں ادا کرو اور " وزلفا من الليل " یعنی وہ دو نمازیں بھی پڑھو جو رات کے ابتدائی حصے میں آتی ہیں یعنی مغرب و عشاء۔ اور فرمایا کہ " إن الحسنات يذهبن السيئات " یعنی یہ پانچ نمازیں صغیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں اور تو نے جو گناہ کیا ہے وہ انہی میں سے ہے ۔ اس پر اس شخص نے سوال کیا کہ کیا یہ نمازیں صرف میرے لیے کفارہ ہیں یا سب لوگوں کے لیے؟ آپﷺ نے جواب دیا کہ یہ میری پوری امت کےلیے ہے ۔ یعنی میری امت میں سے جو بھی اس طرح کا کوئی کام کر بیٹھے گا اس کے لیے یہ پانچ نمازیں کفارہ بن جائیں گی۔ابوالیُسر نے اپنا یہ قصہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک عورت ان کے پاس کھجور خریدنے آئی۔ میں نے اُس سے کہا گھر میں اس سے زیادہ اچھا کھجور رکھا ہوا، وہ میرے ساتھ گھر کے اندر آگئی۔میں اس پر جھکا اور اس کو بوسہ لے لیا۔ (پشیمانی ہوئی اور) میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے ماجرا کہہ سنایا، انھوں نے کہا اسے اپنے تک محدود رکھو، توبہ کرو ، کسی دوسرے کو مت بتانا، لیکن مجھ سے صبر نہ ہو سکا۔ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اُن کو بھی سارا ماجرا سنایا۔ انھوں نے بھی یہی کہا کہ اسے اپنے تک محدود رکھو، توبہ کرو ، کسی دوسرے کو مت بتانا، لیکن مجھ سے صبر نہ ہو سکا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے سامنے سارا معاملہ ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، تم نے اللہ کے راستے میں نکلے ہوئے ایک غازی کی بیوی کے ساتھ ایسی حرکت کی۔ صحابی نے سوچا کاش میں ابھی ایمان لایا ہوتا (تاکہ اس گناہ کا مواخذہ نہ ہوتا) انھوں نے گمان کیا شاید وہ جہنمیوں میں سے ہو گئے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے دیر تک اپنا سر جھکائے رکھا، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے وحی نازل کی ’’وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل‘‘ آیت کریمہ ’’ذكرى للذاكرين‘‘تک۔ پھر میں آپ ﷺ کے پاس آیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے یہ آیت پڑھ کر سنائی، اس پر صحابہ نے پوچھا اے اللہ کے رسول! کیا اس آیت کا حکم صرف اِس (ابوالیسر) کے لیے خاص ہے یا سارے لوگوں کے لیے عام ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا خاص نہیں سب کے لیے عام ہے۔ (ترمذی نے اس کی روایت کی ہے۔ حدیث نمبر: 3115)۔ علامہ البانی نے ’’صحیح و ضعیف ترمذی‘‘ میں حدیث نمبر (3115) کے تحت اسے حسن قرار دیا ہے۔ ایک دیگر روایت میں ہے ’’ما من مسلم يذنب ذنبًا ثم يتوضأ فيصلي ركعتين ثم يستغفر الله تعالى لذلك الذنب إلا غفر له‘‘، وقرأ هاتين الآيتين: (ومن يعمل سوءا أو يظلم نفسه ثم يستغفر الله يجد الله غفوراً رحيما)۔ (والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم) الآية.‘‘۔ترجمہ: کوئی بھی مسلمان اگر کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہ کو بخش دیتا ہے۔ یہ کہہ کر آپ ﷺ نے قرآنِ پاک کی دو آیتیں تلاوت کیں۔1: (ومن يعمل سوءا أو يظلم نفسه ثم يستغفر الله يجد الله غفورا رحيما) یعنی جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ﻇلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وه اللہ کو بخشنے واﻻ، مہربانی کرنے واﻻ پائے گا۔ (سورہ النساء: 110)۔ 2- والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم) الخ یعنی جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناه کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وه لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے۔ (سورہ آل عمران: 135)۔ امام احمد نے اس کی روایت کی ہے، حدیث نمبر: (47) اور شیخ احمد شاکر نے اس کی تصحیح کی ہے۔ یہ بندوں کے ساتھ اللہ تعالی کی رحمت کی کشادگی کی دلیل ہے کہ اُس نے پانچ نمازوں اور نفلی صلوات کو ان کے گناہوں کا کفارہ بنادیا ہے ورنہ وہ ہلاک ہوجاتے۔