الله
أسماء الله الحسنى وصفاته أصل الإيمان، وهي نوع من أنواع التوحيد...
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ جب کسی امت پر رحمت نازل کرنا چاہتا ہے تو اس کے نبی کو فوت کر دیتا ہے اور اسے اس امت کے لیے آگے جا کر باعث اجر و پیش رو بنا دیتا ہے اور جب وہ کسی امت کی بربادی چاہتا ہے تو اس نبی کی زندگی میں اس امت کو عذاب دیتا ہے۔ اور اس کی نظروں کے سامنے اسے برباد کردیتا ہے اور وہ اس کی ہلاکت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے۔ جب کہ انھوں نے اسے جھٹلایا اور نافرمانی کی ہوتی ہے"۔
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی جب امتوں میں سے کسی امت کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو اس کے نبی کو وفات دے دیتا ہے اور اس کی امت اس کے بعد باقی رہتی ہے چنانچہ وہ جنت میں اسے اس امت کا پیش رو اوراس کے لیے اسے سفارشی بنا دیتاہے۔ فَرَط کا حقیقی معنی ہے وہ شخص جو کسی سفر پر جانے والوں کے آگے آگے رہتا ہے تاکہ ان کے پڑاو کے لیے ضروری جگہ تیارکرے۔ پھر اپنے بعد آنے والے کے لیے سفارشی کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ایک اور حدیث میں آتاہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا۔ یعنی تمہارے لیے پانی کی تلاش میں میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہنچوں گا۔ اور اللہ تعالی جب کسی امت کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اسے اس حال میں عذاب دیتا ہے کہ اس کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اس کی نظروں کے سامنے اسے ہلاک کرتا ہے۔ جیسا کہ نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ یا دوسرے انبیاء کا اپنی قوموں کے ساتھ حال ہوا۔ اس مقام پر گویا نبی ﷺ اللہ تعالی کی اس امت پر رحمت کی خبر دے رہے ہیں اور آپ ﷺ ہی اس امت کو دی گئی رحمت ہیں۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے: (وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين) [الأنبياء: 107۔ ترجمہ: اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ اس امت کے لیے رحمت ہیں ۔ اللہ تعالی نے وعدہ کیا کہ جب تک آپ ﷺ اس امت میں ہیں وہ اس پر عذاب نازل نہیں کرے گا اور ان پر اپنے فضل و کرم کی مزید عنایت کرتے ہوئے فرمایا: (وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون) [الأنفال: 33]۔ ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وه استغفار بھی کرتے ہوں۔