المحسن
كلمة (المحسن) في اللغة اسم فاعل من الإحسان، وهو إما بمعنى إحسان...
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "دس باتیں فطرت میں سے ہیں: مونچھیں کاٹنا ، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا ، ناک میں پانی چڑھانا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، بغل کے بال اکھیڑنا، زیر ناف بال مونڈنا اور پانی سےاستنجاء کرنا"۔ روای کہتے ہیں کہ میں دسویں چیز بھول گیا، شاید کلی کرنا ہو۔ وکیع جو کہ اس حدیث کے راویون میں سے ہیں کہتے ہیں کہ انتقاص الماء کا مطلب ہے پانی سے استنجا کرنا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ سے فطرت کی جملہ سنتوں کو بیان کر رہی ہیں۔ ”الفِطْرة“ سےمراد وہ ہیئت ہے جس پر اللہ نے اپنے بندوں کی تخلیق فرمائی اور اس پر انہیں وجود بخشا اور یہ کہ اس میں خیر موجود ہے۔ یہاں مراد فطرت سلیمہ ہے کیونکہ کج رو فطرت کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس لیے کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: ”ہر نوزائدہ بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں“۔ سننِ فطرت میں سے سب سے پہلی سنت ”مونچھ کاٹنا“ ہے۔ یعنی اسے ہلکا سا تراشنا یہاں تک کہ ہونٹ ظاہر ہو جائے۔ کیونکہ ایسا کرنے میں صفائی کا حصول اور ناک سے نکلنے والے مادوں سے بچاؤ ہوتا ہے۔ اگر مونچھ کے بال ہونٹ پر آ رہے ہوں تو اس کے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء لگ جاتی ہیں اور مونچھوں کی کثرت سے شکل میں بھی بگاڑ آتا ہے، اگرچہ اس شخص کو یہ اچھی ہی لگیں جو ان کی پرواہ نہ کرتا ہو۔ لھٰذا مسلمان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ کاٹ تراش کرکے اپنی مونچھوں کی دیکھ بھال کرتا رہے اور اسے چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے۔ کیونکہ مسلم شریف میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ: ”مونچھیں کترنے، ناخن کاٹنے، بغل کے بال اکھیڑنے اور زیر ناف بال مونڈنے کے سلسلے میں ہمارے لئے وقت مقرر کیا گیا کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں“۔ دوسری سنت ”داڑھی کو(بڑھنے کے لیے) چھوڑ دینا“ ہے۔ ”اللحية“ سے مراد وہ بال ہیں جو ٹھوڑی اور دونوں جبڑوں پر اگ آتے ہیں۔ داڑھی کے اعفاء سے مرادیہ ہے کہ آدمی اسے زیادہ ہونے دے بایں طور کہ نہ تو اسے منڈائے اور نہ ہی کم یا زیادہ اسے چھوٹا کرے۔ کیونکہ اعفاء کا لفظ کثرت اور زیادہ کرنے کے معانی پر دلالت کرتا ہے۔ مراد یہ کہ اسے زیادہ کرو اور اس کی کثرت ہونے دو۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (حتى عَفَوا) [الأعراف: 95] ترجمہ: یہاں تک کہ وہ زیادہ ہوگئے۔ نبی ﷺ سے بہت سی احادیث مروی ہیں جن میں متعدد الفاظ کے ساتھ داڑھی کو بڑھانے کا حکم آیا ہے۔ ایک حدیث میں ”وفّروا“ کا لفظ ہے، ایک میں ”أرخوا“ کا لفظ ہےاور ایک میں ”أعفوا“ کا لفظ ہے۔ یہ تمام الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اسے اپنے حال پر باقی رکھتے ہوئے زیادہ ہونے دینا چاہیے اور اس سے تعرض نہیں کرنا چاہیے۔ اس بنا پر مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنی داڑھی کو منڈائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو نبی ﷺ کے طریقے سے انحراف اور آپ ﷺ کی نافرمانی کا مرتکب ہو گا اور مشرکین سے مشابہت اختیار کرے گا، اسی کا فتوی دائمی کمیٹی کے علماء وغیرہ نے دیا ہے۔ "مسواک کرنا"۔ یعنی مسواک کرنے کا شمار ان خصالِ فطرت میں ہوتا ہے جن کی شریعت نے ترغیب دی ہے۔ "مسواک منہ کی صفائی اور رب کی رضا کا سبب ہے" اسی لیے اس کا کرنا کسی بھی وقت مشروع ہے، تاہم وضوء اور نماز کے اوقات میں، نیند سے بیداری پر، منہ کی بو میں تغیر پیدا ہونے اور دانتوں پر پیلاہٹ ظاہر ہونے اور اس طرح کےديگر مواقع پر اس کے کرنے کی زیادہ تاکید ہے۔ "ناک میں پانی چڑھانا"۔ یعنی ناک میں پانی چڑھانا بھی فطرت میں سے ہے۔ کیونکہ اس سے ناک میں موجود ایسی گندگیوں کی صفائی اور ان کا ازالہ ہوتا ہے جو انسان کے لیے تکلیف اور ضرر رسانی کا سبب بن سکتی ہیں۔ ناک میں پانی چڑھانا دوران وضوء بھی ہو سکتا ہے اور وضوء کے علاوہ بھی یعنی جب بھی آپ کو ناک صاف کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو اپنی ناک میں پانی چڑھا کر اسے صاف کرلیں۔اس سلسلے میں لوگ مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو تو اس کی صرف وضوء کرتے ہوئے ضرورت پڑتی ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جنھیں بہت زیادہ ناک صاف کرنا پڑتا ہے۔ سننِ فطرت میں سے ایک "کلی کرنا "بھی ہے۔ یہ بھی فطرت میں سے ہے۔ منہ اور ناک میں بہت سی گندگیاں در آتی ہیں۔ چنانچہ ان پر توجہ دینا فطرت کا جزء ہوا۔ "ناخن کاٹنا"، يعنی ناخن کاٹنا فطرت ميں سےہے۔ اس سے مراد دونوں ہاتھ پاؤں کے ناخن ہیں۔ انہیں بھی کاٹے بنا چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں، جیسا کہ گزشتہ حدیث میں آیا ہے۔ "جوڑوں کو دھونا" یعنی انگلیوں کے بیرونی اور اندرونی جوڑوں کو دهلنا کیونکہ ان جگہوں ميں جھریاں اور سلوٹیں ہونے کی وجہ سے ان پر گندگی جمع ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات ان تک پانی نہیں پہنچ پاتا۔ اگر ان کا خیال رکھا جائے بایں طور کہ انہیں ملا جائے اور دوسرا ہاتھ ان پر پھیرا جائے تو ان تک پانی پہنچ جاتا ہے۔ لھٰذا ان کا خیال رکھنا بھی فطری امور میں سے ہے۔ جسم میں موجود ہر اس جگہ کا حکم انگليوں کے جوڑوں ہی کی طرح ہے جہاں پسینے یا کسی اور وجہ سے میل کچیل جمع ہو جاتی ہو جیسے کان کا سوراخ اور رانوں کا اندرونی حصہ اور اس طرح کی دیگر جگہیں جو عموماً چھپی رہتی ہیں۔ "بغل کے بال اکھیڑنا"۔ یعنی خصالِ فطرت میں سے ایک خصلت بغل کے بال کو کھینچ کر انہیں جڑ سے اکھیڑنا بھی ہے۔ کیونکہ اس جگہ بہت زیادہ پسینہ آتا ہے اور میل کچیل جمع ہوتی رہتی ہے جس سے بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔ اسے بھی چالیس دن سے زیادہ نہیں چھوڑنا چاہیے جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ کی سابق الذکر حدیث میں آیا ہے۔ اگر طاقت ہو تو بغل کے بالوں کو اکھیڑنا ہی افضل ہے۔ تاہم اگر ایسا کرنا مشقت کا باعث ہو تو پھر انھیں مونڈنے یا بال صفا کریموں کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اصل غرض تو ان بالوں کو دور کرنا اور جگہ کو صاف کرنا ہے جو کہ حاصل ہو جاتا ہے۔ "زیر ناف بال مونڈنا"۔ یعنی زیر ناف بال صاف کرنا بھی خصالِ فطرت میں سے ہے۔ "العانة" سے مراد وہ سخت بال ہیں جو مرد اور عورت کی اگلی شرم گاہ کے گرد اگ آتے ہیں۔ فطرت کا تقاضا ہے کہ انہیں زائل کیا جائے چاہے ایسا مونڈكر، یا اكھيڑ كر يا كاٹ کر ہو یا پھر جدید مواد (لوشن وغیرہ) کو استعمال کر کے ہو۔ کیونکہ اصل مقصد صفائی ہے اور ان تمام طریقوں سے یہ مقصود حاصل ہوتا جاتاہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی سابقہ حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ رہنے دیا جائے۔ "انتقاص الماء" یعنی انتقاص الماء بھی فطرت میں سے ہے جس کی تفسیر استنجاء کرنے سے کی گئی ہے۔ اس معنی کی تائید ابو داود اور ابن ماجہ کی اس روایت سے ہوتی ہے جو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "کلی کرنا، ناک میں پانی چڑھانا اور پانی چھڑکنا فطرت میں سے ہیں۔" استنجاء کا معنی ہے: دونوں شرم گاہوں سے نکلنے والی شے کو کسی پاک چیز جیسے پانی، پتھر، چیتھڑوں اور رومال وغیرہ سے صاف کرنا جس میں (گندگی کو) زائل کرنے کی صلاحیت ہو۔ راویِ حدیث بیان کرتے ہیں: ”میں دسویں خصلت بھول گیا، لیکن ہو سکتا ہے وہ کلی کرنا ہو“۔ یہ راوی کا شک ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ تمام اشیاء انسان کے ظاہر کی تکمیل کرتی ہیں اور اسے پاک صاف کرتی ہیں اور نقصان دہ اور قبیح چیزوں کو اس سے دور کرتی ہیں۔