المؤمن
كلمة (المؤمن) في اللغة اسم فاعل من الفعل (آمَنَ) الذي بمعنى...
عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: غزوہ حنین کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو غنیمت دی تھی آپ ﷺ نے اسے لوگوں اور ان افراد کے مابین تقسیم کر دیا جن کی تالیف قلبی مقصود تھی اور انصار کو اس میں سے کچھ بھی نہ دیا۔ اس کا انہیں کچھ ملال ہوا کہ لوگوں کو جو مال ملا وہ انہیں نہیں ملا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے انصاریو! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا پھر تم کو میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی؟ کیا ایسا نہیں تھا کہ تم بکھرے ہوئے تھے اور اللہ نے میرے ذریعے تمہیں باہم دگر جوڑ دیا؟ کیا تم محتاج نہیں تھے کہ پھر میرے ذریعہ اللہ نے تمہیں غنی کردیا؟ آپ ﷺ کے ہر جملے پر انصار بس یہی کہتے جاتے تھے کہ: اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر سب سے زیادہ احسان ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میری باتوں کا جواب دینے سے تمہیں کون سی شے روک رہی ہے؟ صحابہ کرام نے پھر یہی جواب دیا کہ: اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر سب سےزیادہ احسان ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہتے تو مجھ سے کہہ سکتےتھے کہ آپ ہمارے پاس اس اس حال میں آئے تھے (کہ لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے، لیکن ہم نے آپ کی تصدیق کی وغیرہ)۔ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جب لوگ بکریاں اور اونٹ لے جا رہے ہوں تو تم اپنے گھروں کی طرف اللہ کے رسول کو ساتھ لے جاؤ؟ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک آدمی ہوتا۔ اگر لوگ ایک وادی اور گھاٹی میں رہیں میں انصار کی وادی اور گھاٹی میں رہوں گا۔ انصار استر کی طرح ہیں (جو جسم سے ہمیشہ لگا رہتا ہے) اور دیگر لوگ ابرہ کی طرح۔ تم لوگ (انصار) دیکھوگے کہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ تم ایسے وقت میں صبر کر نا یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آ ملو۔
جب غزوہ حنین میں اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد ﷺ کو فتح سے نوازا اور آپ ﷺ کے ہاتھ بہت سارا مال غنيمت آيا تو طائف کا حصار ختم کرنے کے بعد آپ ﷺ اس مال غنیمت کے پاس تشریف لائے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے یہ سارا مال ان لوگوں میں بانٹ دیا جو نئے نئے اسلام لائے تھے تاکہ ان کی دل جوئی ہو جائے۔ یہ بات کچھ انصاری لوگوں کو پسند نہ آئی۔ رہے سرکردہ انصاری صحابہ تو وہ خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ آپﷺ نے جو اقدام کیا ہے وہ برحق ہے۔ جب آپ ﷺ تک ان کی یہ بات پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ ان لوگوں کو مال غنیمت دیتے جا رہے ہیں جن کا خون ہماری تلواروں سے ہنوز ٹپک رہا ہے اور ہمیں چھوڑے جا رہے ہیں، تو آپ ﷺ نے انہیں ایک خیمے میں اکٹھا کرنے کا حکم دیا ۔ جب وہ اکٹھے ہو چکے تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ مجھ تک تمہاری کیا بات پہنچی ہے ۔ ۔ اخیر تک کا تذکرہ کیا۔ آپ ﷺ نے ان کی بات پر اظہارِ ناگواری کیا اور ساتھ ہی انھوں نے آپ ﷺ کی اور آپ کے لائے ہوئے اسلام کی جو نصرت و مدد کی تھی اس کو بھی تسلیم کیا۔ اس پر وہ خوش ہو گئے اور انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ کتنی بڑی نعمت ہے جو اللہ نے اپنے رسول کی صحبت کی شکل میں اور آپ ﷺ کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس جانے کی شکل میں ان کے لیے رکھ چھوڑی ہے۔ نیز انھوں نے جو خدمات اور قربانیاں پیش کی ہیں اس پر اللہ نے آخرت میں ان کے لیے جو حصہ محفوظ کر رکھا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں اس بات سےآگاہ کیا کہ آپ ﷺ کے بعد (دوسرے لوگوں کو) ان پر ترجیح دی جائے گی، جس پر آپ ﷺ نے انہیں صبر کرنے کی تلقین کی۔