ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟‘‘، صحابہ کرام نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (غیبت یہ ہے کہ) تم اپنے بھائی کا ذکر اس انداز میں کرو جو اسے نا پسند ہو‘‘۔ پوچھا گیا کہ اگر وہ بات میرے بھائی میں فی الواقع موجود ہو تب بھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت (چغلی) کی اور جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود نہیں ہے تو تم نے اس پر تہمت باندھی“۔
شرح الحديث :
نبی ﷺ غیبت کی حقیقت بیان فرما رہے ہیں۔ غیبت یہ ہے کہ غیر موجود مسلمان کے بارے میں ایسی باتیں کہی جائیں جو اسے ناپسند ہوں چاہے ان کا تعلق اس کی پیدائشی صفات سے ہو یا اخلاقی صفات سے بشرطیکہ اس میں یہ صفت موجود ہو۔ اگر وہ صفت اس میں موجود ہی نہ ہو جس کا آپ نے ذکر کیا ہے تو آپ نے غیبت جیسے حرام فعل کے ساتھ ساتھ انسان پر ایسی بات کی بہتان تراشی اور افترا پردازی کا بھی ارتکاب کیا جو اس میں موجود نہیں تھی۔