البارئ
(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو رخسار پیٹے، گریبان چاک کرے اور دور جاہلیت کی سی باتیں کرے۔
اللہ جو لے لے وہ بھی اسی کا ہے اور جو دے وہ بھی اسی کا ہے۔ اسی میں کامل حکمت مضمر ہے اور یہی راست پر مبنی تصرف ہے۔ جو اس کی مخالفت کرتا ہے اور اس میں جھگڑا کرتا ہے وہ گویا اللہ کی قضاء و قدر پر نکتہ چینی کرتا ہے حالانکہ وہ عین مصلحت اور حکمت ہے اور عدل و صلاح کی بنیاد ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو اللہ کی قضاء پر جزع فزع اور اظہار ناراضگی کرتا ہے وہ ناپسندیدہ اور آپ ﷺ کی سنت کے برخلاف فعل کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ ایسے شخص کا میلان ان لوگوں کی طرف ہو جاتا ہے جنہیں جب کوئی برائی لاحق ہوتی ہے تو وہ خوب جزع فزع کرتے ہیں اور بے قرار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کا دل اس زندگی سے جڑا ہوتا ہے اور وہ اپنے اوپر آنے والی مصیبت پر صبر کرنے پر اللہ سے ثواب اور اس کی رضا کے امیدوار نہیں ہوتے۔ پس وہ ان لوگوں سے بری ہیں جن کا ایمان کمزور ہوتا ہے اور جو مصیبت کو برداشت نہیں کر پاتے بلکہ اس کی وجہ سے بین کر کے اور نوحہ کر کے دلی اور قولی طور پر یا پھر گریبانوں کو پھاڑ کر اور جاہلیت کے طور طریقے کو اپناتے ہوئے اپنے رخسار پیٹ کر فعلی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ کے اولیاء وہ لوگ ہیں جن پر جب کوئی مصبیت آتی ہے تو وہ اللہ تعالی کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں: ﴿إِنَّا لله و إِنا إليه رَاجعُونَ۔ أولئِكَ عَلَيهِم صَلَوات مِنْ رَبِّهِم وَ رَحمَة وَأولئِكَ هُمُ المُهتدُونَ﴾. ترجمہ: ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ (سورہ بقرہ: 156-157)۔ اہلِ سنت و جماعت کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان صرف گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوتا چاہے یہ گناہ کبیرہ ہی کیوں نہ ہوں جیسے ناحق کسی جان کا قتل۔ بہت سی ایسی صحیح نصوص موجود ہیں جن کا ظاہری معنی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مسلمان کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے جیسے یہ حدیث کہ "جس نے رخسار پیٹے اور گریبان پھاڑے وہ ہم میں سے نہیں۔۔۔" ان احادیث کی سب سے بہتر تاویل وہ ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایمان کی دو اقسام ہیں: ا۔ وہ ایمان جو جہنم میں داخل ہونے سے بچاتا ہے۔ ب۔ وہ ایمان جو جہنم میں جانے سے نہیں بچاتا تاہم ہمیشہ جہنم میں رہنے سے روکتا ہے۔ جس کا ایمان کامل ہو جاتا ہے اور وہ نبی ﷺ کے طریقے پر گامزن ہو جاتا ہے اور آپ ﷺ کی کامل سیرت کو اختیار کر لیتا ہے وہ ایسا شخص ہوتا ہے جس کا ایمان اسے جہنم میں داخل ہونے سے بچا لیتا ہے۔ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: تمام اشیاء کی کچھ شرائط اور کچھ موانع ہوتے ہیں اور کوئی شے صرف اسی وقت پوری ہوتی ہے جب اس کی تمام شرائط پوری ہوں اور تمام موانع غیر موجود ہوں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب عذاب کو کسی عمل پر مرتب کیا جائے تو وہ عمل عذاب ہونے کا موجب ہو گا جب تک کہ اس کے نہ ہونے کا کوئی موجب نہ پایا جائے۔ عذاب ہونے میں سب سے بڑا مانع ایمان کا موجود ہونا ہے جو جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے سے بچاتا ہے۔