القاهر
كلمة (القاهر) في اللغة اسم فاعل من القهر، ومعناه الإجبار،...
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حافظ قرآن کی مثال رسی سے بندھے ہوئے اونٹ جیسی ہے، اگر اس نے ان کی نگہداشت کی، تو وہ انھیں قابو میں رکھے گا اور اگر انھیں چھوڑ دے گا، تو وہ چلے جائیں گے“۔
”صاحب قرآن کی مثال“ یعنی قرآن مجید کو یاد کرتے ہوئے دل و دماغ میں راسخ کرنے والا۔ ”رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کے مالک جیسی ہے“ اس کے بعد آپ ﷺ نے اس تشبیہ کی وجہ شبہ واضح فرمائی کہ ”اگر وہ اس کو اپنی نگہداشت میں رکھے گا“ یعنی ہمیشہ اس کو باندھ کر رکھے گا، اس کو بار بار دیکھتا رہے گا اور اس کے حال سے باخبر و چوکنا رہے گا ”تو اسے اپنی ملکیت و قبضہ میں رکھ سکے گا“ اور اگر اس کو شتر بے مہار چھوڑ دے کا، تو "وہ بھاگ جائے گا"۔ یہی حال حافظ قرآن کا ہے کہ اگر وہ مداومت کے ساتھ روزانہ اس کی تلاوت کرے اور اس کو بار بار دہراتا رہے، تو یہ اس کے دل و دماغ میں راسخ و جاگزیں ہوجائے گا اور اگر اس کو طاق نسیان کی نذر کردے، تو دل و دماغ سے رخصت ہوجائے گا اور بھلا دیا جائے گا اور بعد ازاں اس کو دوبارہ حفظ کرنے کے لیے کافی مشقت اور تکان جھیلنی پڑے گی۔ چنانچہ جس قدر قرآن مجید کی حفاظت کا خیال رکھا جائے، اسی لحاظ سے وہ باقی رہے گا، جیسے اونٹ کو جب تک پابہ زنجیر رکھاجائے، محفوظ ہے۔ یہاں اونٹ کو خاص طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ گھریلو جانوروں میں سب سے زیادہ تیزی سے بدکنے والا جانور ہے اور اس کے بھاگ جانے کے بعد اس کو پانا بہت ہی مشکل امر ہے۔