الرقيب
كلمة (الرقيب) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) بمعنى (فاعل) أي:...
ایاس بن عبد اللہ بن ابی ذباب - رضی اللہ عنہ - روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی باندیوں (یعنی اپنی بیویوں) کو نہ مارو۔ پھر اس حکم کے کچھ دنوں بعد عمر- رضی اللہ عنہ - رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ عورتیں اپنے خاوندوں پر دلیر ہو گئیں ہیں۔ آپ ﷺ نے عورتوں کو مارنے کی اجازت عطا فرما دی۔ اس کے بعد بہت سی عورتیں رسول کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے پاس جمع ہوئیں اور اپنے خاوندوں کی شکایت کیں کہ وہ ان کو مارتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ محمد ﷺ کی بیویوں کے پاس بہت سی عورتیں اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر آئی ہیں۔ ایسے لوگ تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں۔
نبی ﷺ نے بیویوں کو مارنے سے منع فرمایا۔ اس پر عمر بن خطاب -رضی اللہ عنہ - نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: عورتیں اپنے شوہروں پردلیر ہو گئی ہیں اور نافرمانی کرنے لگی ہیں۔ اس پر نبی ﷺ نے انہیں ہلکا سا مارنے کی رخصت دے دی بشرطیکہ کہ کوئی وجہ پائی جائے جیسے نافرمانی وغیرہ۔ اگلے دن عورتیں نبی ﷺ کی بیویوں کے پاس آ گئیں اورانہوں نے اپنے شوہروں کی شکایت کی کہ وہ سختی کے ساتھ مارتے ہیں اور رخصت کو غلط انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ مرد جو اپنی عورتوں کو تیز مارتے ہیں وہ تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں۔ اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مارنے کو نافرمانی کے علاج کے مراحل میں سے آخری مرحلہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ‘‘۔ (سورۃ النساء: 34) ترجمہ: اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو۔ ان تینوں طریقوں کا ذکر ترتیب بیان کرنے کے لیے ہے نہ کہ اس لیے کہ سب کو ایک ہی وقت میں بروئے کار لایا جائے۔ چنانچہ مرد پہلے سمجھائے بجھائے اور نصیحت کرے اگر اس سے کچھ فائدہ ہو تو الحمد للہ اور اگر یہ سود مند نہ ہو تو پھر اسے اس کے بستر میں تنہا چھوڑ دے(اُس کے ساتھ نہ سوئے)، اگر یہ بات بھی کار گر نہ ہو تو پھر اس کی تادیب کے لیے اسے (دھیرے سے) مارے نہ کہ انتقام لینے کے لیے۔