البحث

عبارات مقترحة:

الأعلى

كلمة (الأعلى) اسمُ تفضيل من العُلُوِّ، وهو الارتفاع، وهو اسمٌ من...

البارئ

(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...

الحق

كلمة (الحَقِّ) في اللغة تعني: الشيءَ الموجود حقيقةً.و(الحَقُّ)...

ابو خبیب عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جنگ جمل کے موقع پر جب زبیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا۔ میں ان کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے کہا بیٹے! آج کی لڑائی میں ظالم مارا جائے گا یا مظلوم۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج میں مظلوم قتل کیا جاؤں گا اور مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے قرضوں کی ہے۔ کیا تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد ہمارا کچھ مال بچ رہے گا؟ پھر انہوں نے کہا: بیٹے! ہمارا مال فروخت کر کے اس سے میرا قرض ادا کر دینا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی وصیت کی اور اس تہائی کے تیسرے حصے کی وصیت عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے بچوں کے لئے کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے اموال میں سے کچھ بچ جائے تو اس کے تہائی کا تیسرا حصہ تمہارے بچوں کے لئے ہو گا۔ ہشام راوی نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بعض لڑکے زبیر رضی اللہ عنہ کے لڑکوں کے ہم عمر تھے۔ جیسے خبیب اور عباد۔ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے اس وقت نو لڑکے اور نو لڑکیاں تھیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر زبیر رضی اللہ عنہ مجھے اپنے قرض کے سلسلے میں وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ بیٹا! اگر قرض ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ تو میرے مولا سے اس کی ادائیگی میں مدد چاہنا۔ عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: اللہ کی قسم! میں ان کی بات نہ سمجھ سکا (کیونکہ مولا کا لفظ ذومعنی ہے) میں نے پوچھا کہ ابا جان! آپ کے مولا کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ! عبداللہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اللہ کی قسم! ان کا قرض ادا کرنے میں جب بھی دشواری پیش آئی تو میں نے اسی طرح دعا کی کہ: اے زبیر کے مولا! ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرا دے اور اللہ قرض کی ادائیگی کی صورت پیدا فرما دیتا۔ چنانچہ جب زبیر رضی اللہ عنہ (اسی موقع پر) شہید ہو گئے تو انہوں نے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ ان کا ترکہ کچھ آراضی کی صورت میں تھا اور اسی میں غابہ کی زمین بھی شامل تھی اس کے علاوہ گیارہ مکانات مدینہ میں تھے ‘ دو مکان بصرہ میں تھے ‘ ایک مکان کوفہ میں تھا اور ایک مصر میں تھا۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ ان پر جو اتنا سارا قرض ہو گیا تھا اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ جب ان کے پاس کوئی شخص اپنا مال لے کر امانت رکھنے آتا تو آپ اسے کہتے کہ میں امانت نہیں رکھ سکتا البتہ اس صورت میں رکھ سکتا ہوں کہ یہ میرے ذمے بطور قرض رہے (نہ کہ بطور امانت کیونکہ امانت کی ضمان نہیں ہوتی)۔ اس لئے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ ضائع نہ ہو جائے۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کسی علاقے کے امیر کبھی نہیں بنے تھے۔ نہ ہی وہ ٹیکس اور خراج وصول کرنے پر کبھی مقرر ہوئے اور نہ کبھی کوئی دوسرا عہدہ ان کے پاس رہا تھا۔البتہ انہوں نے رسول اللہ کے ساتھ اور ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ جہاد میں ضرورشرکت کی تھی۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب میں نے اس رقم کا حساب کیا جو ان پر قرض تھی تو یہ بائیس لاکھ بنی۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ملے تو دریافت کیا: بیٹے! میرے (دینی) بھائی پر کتنا قرض ہے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے چھپانا چاہا اور کہہ دیا کہ ایک لاکھ۔اس پر حکیم رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! میں تو نہیں سمجھتاکہ تمہارے پاس موجود سرمایہ سے یہ قرض ادا ہو سکے گا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ اگرقرض بائیس لاکھ ہو تو پھر آپ کی کیا رائے ہو گی؟ انہوں نے فرمایا پھر تو یہ اسے ادا کرنا تمہاری برداشت سے بھی باہر ہے۔ خیر اگر کوئی دشواری پیش آئے تو مجھ سے مدد طلب کرنا۔ عبداللہ ابن زبیررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے غابہ کی جائیداد ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدی تھی لیکن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وہ سولہ لاکھ میں بیچی۔ پھر انہوں نے اعلان کیا کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ پر جس کا قرض ہو وہ غابہ میں آ کر ہم سے مل لے۔ چنانچہ عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ آئے جن کا زبیر رضی اللہ عنہ پرچار لاکھ روپیہ قرض تھا۔ انہوں نے تو عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو پیش کش کی کہ اگر تم چاہو تو میں یہ قرض چھوڑ سکتا ہوں۔ لیکن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: نہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میرے قرض کو تم آخر میں دے دینا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس پر بھی یہی کہا کہ تاخیر کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ آخر انہوں نے کہا کہ پھر اس زمین میں میرے حصے کا قطعہ مقرر کر دو۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ یہاں سے یہاں تک لے لیجئے۔ (راوی کا) بیان ہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے اس جائداد کو فروخت کر کے زبیر رضی اللہ عنہ کا سارا قرض ادا کر دیا۔ اور اس میں سے ساڑھ چار حصے پھر بھی بچ رہے۔ پھر عبداللہ رضی اللہ عنہ، معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں (شام) تشریف لے گئے۔ وہاں ان کے پاس عمرو بن عثمان ‘ منذر بن زبیر اور ابن زمعہ بھی موجود تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا کہ غابہ کی جائیداد کی قیمت کتنی لگی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ ہر حصے کی قیمت ایک لاکھ مقرر ہوئی تھی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اب باقی کتنے حصے رہ گئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ساڑھے چار حصے۔ اس پر منذر بن زبیر نے کہا کہ میں ایک حصہ ایک لاکھ میں لیتا ہوں۔ عمرو ابن عثمان نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ کے عوض میں لیتا ہوں۔ ابن زمعہ نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں میں لیتا ہوں۔ اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اب کتنے حصے باقی بچے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ حصہ! معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر اسے میں ڈیڑھ لاکھ میں لے لیتا ہوں۔ راوی کا بیان ہے کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنا حصہ بعد میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو چھ لاکھ میں بیچ دیا۔ پھر جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما قرض کی ادائیگی کر کے فارغ ہو چکے تو زبیر رضی اللہ عنہ کی اولاد نے کہا کہ اب ہماری میراث ہم میں تقسیم کر دیجئیے۔ لیکن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: اللہ کی قسم! میں تب تک تمہارے مابین میراث تقسیم نہیں کروں گا جب تک چار سال تک ایامِ حج میں اعلان نہ کرا لوں کہ جس شخص کا بھی زبیر رضی اللہ عنہ پر قرض ہو وہ ہمارے پاس آئے، ہم اس کا قرض ادا کریں گے۔ چنانچہ عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اب ہر سال ایام حج میں اس کا اعلان کرانا شروع کیا اور جب چار سال گزر گئے تو انہوں نے ان کے مابین میراث تقسیم کر دی اور تہائی حصہ ادا کردیا۔ زبیر رضی اللہ عنہ کی چار بیویاں تھیں جن میں سے ہر بیوی کے حصے میں بارہ لاکھ کی رقم آئی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی کل جائداد پانچ کروڑ دو لاکھ مالیت کی ہوئی۔

شرح الحديث :

جنگ جمل کے موقع پر جو کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد کرنے کے معاملے پر ہوئی تھی، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے کہا: "میں سمجھتا ہوں کہ میں مظلوم شہید کر دیا جاؤں گا۔ مجھے جس چیز کی پرواہ ہے وہ میرے قرض ہیں جو میرے اوپر چڑھے ہوئےہیں، لھٰذا تم انھیں میری طرف سے ادا کر دینا۔" زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے قرض اتنے زیادہ تھے کہ وہ ان کے سارے مال کو محیط تھے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے بیٹے کے بچوں (پوتوں) کے لیے وصیت کی۔ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ ان کا بیٹا زندہ ہے۔ اس لیے انہوں نے تہائی مال کی وصیت کا ایک تہائی حصہ ان کے لئے مختص کر دیا جو سارے مال کا نواں حصہ بنتا ہے۔ لوگ اپنا مال ان کے پاس بطور امانت رکھنے کے لیے آتے، تو وہ اس اندیشے کے تحت بطور امانت اسے لینے سے انکار کر دیتے کہ کہیں وہ ضائع نہ ہو جائے اور فرماتے: "یہ امانت نہیں بلکہ مجھ پر قرض ہے۔" زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ایک زاہد و امانت دار شخص تھے۔ انہوں نے کبھی بھی کسی حکومتی عہدہ یا کسی بھی شے کی ذمے داری نہیں اٹھائی تھی۔ جب ان کی وفات ہو گئی اور ان کے بیٹے نے ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کر دیا اور ان کا کچھ مال بچ بھی گیا تو ورثاء نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ باقی ماندہ کو ان کے مابین تقسیم کر دیں۔ لیکن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یہ کہتے ہوئے اسے تقسیم کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ایام حج میں اعلان کرانے کے بعد ہی اسے تقسیم کریں گے۔ اگر یہ بالکل واضح ہو گیا کہ کوئی ایسا شخص باقی نہیں رہا جس کا ان کے والد پر قرض ہو تو وہ اسے ان میں تقسیم کر دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا۔ جب سارا قرض ادا کر چکے تو آٹھواں حصہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی بیویوں کو دے دیا جو ترکے میں ان کا حصہ بنتا تھا۔ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی اس وقت چار بیویاں تھیں۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية