العليم
كلمة (عليم) في اللغة صيغة مبالغة من الفعل (عَلِمَ يَعلَمُ) والعلم...
حذیفہ بن یمان اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت ہے: ’’قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا۔ مومن کھڑے ہوں گے يہاں تک کہ جنت ان کے قریب کر دی جائے گی۔ چنانچہ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آ کر ان سے درخواست کریں گے کہ: اے ہمارے باپ! ہمارے ليے جنت کھلوائيے۔ اس پر وہ جواب دیں گے: تمھیں تمہارے باپ کی خطا ہی نے تو جنت سے نکلوایا تھا۔ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ تم میرے بیٹے ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ۔ آپ ﷺ نےفرمایا: پس لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ میں تو اس کا اہل نہیں ہوں، میرے خلیل ہونے کا مقام تو اس سے بہت پیچھے ہے۔ تم لوگ موسی علیہ السلام کے پاس جاؤ جن سے اللہ نے براہ راست کلام کیا تھا۔ چنانچہ وہ موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے: میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ تم عیسی علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ تو عیسی علیہ السلام جواب دیں گے: میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ چنانچہ وہ محمد ﷺ کے پاس آئیں گے۔ آپ ﷺ کھڑے ہوں گے اور آپ صلی اللہ عليہ وسلم کو (شفاعت کی) اجازت دے دی جائے گی۔ اور امانت اور صلہ رحمی کو چھوڑ ديا جائے گا تو وہ دونوں پل صراط کے دائیں اور بائیں جانب کھڑے ہو جائیں گے۔ تم میں سے پہلا گروہ بجلی کی طرح گزر جائے گا۔‘‘ میں نے دریافت کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! بجلی کی طرح گزرنے کے کیا معنی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: “ کیا تم نے نہيں ديکھا کہ بجلی کیسے پلک جھپکنے میں گزر کر واپس لوٹ آتی ہے۔ پھر (دوسرا گروہ) ہوا کے گزرنے كى طرح، پھر پرندے کے گزرنے کی طرح، پھر پیادہ تیز ڈوڑنے والے مضبوط ترین آدميوں کی طرح (گزريں گے)۔ لوگ اپنے اعمال کے مطابق گزر رہے ہوں گے اور تمہارے نبی پل صراط پر کھڑے ہوئے فرما رہے ہوں گے: اے ميرے پروردگار! تو (انہیں جہنم سے) محفوظ رکھ، تو (انہیں) سلامتی سے گزار دے، يہاں تک کہ بندوں کے اعمال (انہيں تیز رفتاری کے ساتھ گزارنے سے) عاجز آ جائیں گے، حتی کہ آدمی گھسٹتا ہوا آئے گا، اسےچلنے کی طاقت نہ ہوگی۔ اور پل صراط کے دونوں کناروں پر آنکڑے لٹکے ہوں گے اور جس کے بارے ميں انھیں حکم ہوگا اسے اپنی گرفت ميں لے لیں گے۔ چنانچہ کچھ تو زخمی ہوں گے لیکن نجات پا جائیں گے اور کچھ کو پٹخ کر جہنم میں ڈال دیا جائے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے۔
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو حساب وکتاب اور جزا و سزا کے لیے جمع کرے گا۔ مومن لوگ کھڑے ہوں گے اور جنت کو ان کے قریب کر دیا جائے گا تاہم اسے ان کے لیے کھولا نہیں جائے گا کیونکہ قیامت کے دن میدان حشر میں بہت لمبے وقت کے لیے ٹھہرنا ہو گا۔ چنانچہ وہ آدم علیہ السلام کے پاس جا کر ان سے گزارش کریں گے کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں درخواست کریں کہ وہ ان کے لیے جنت کو کھول دے۔ آدم علیہ السلام انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیں گے کہ وہ اس کے اہل نہیں ہیں کیونکہ ان کی خطا کی وجہ سے ہی تو ان سب کو جنت سے نکلنا پڑا تھا۔ وہ انہیں ابراہیم علیہ السلام کے پاس بھیج دیں گے کیونکہ وہ اللہ کے خلیل ہیں اور خلت محبت کا سب سے بلند درجہ ہے۔ وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے لیکن وہ بھی انہیں یہ جواب دیں گے کہ وہ اس مقامِ بلند کے حامل نہیں ہيں۔ وہ ان سے کہیں گے کہ موسی علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ تعالی نے ان سے بغیر کسی واسطے کے براہ راست کلام کیا تھا۔ چنانچہ وہ موسی علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور وہ بھی ان سے کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ تم عیسی علیہ السلام کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالی نے اپنے کلمے سے پیدا فرمایا۔ چنانچہ وہ عیسی علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور وہ بھی ان سے یہی کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ بالآخر وہ ہمارے نبی محمد ﷺ کے پاس آئیں گے اور آپ ﷺ سے گزارش کریں گے کہ آپ ﷺ اللہ سے درخواست کریں کہ اللہ ان کا فیصلہ فرما دے اور ان کے لیے جنت کو کھول دے۔ آپ ﷺ ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے(اللہ سے شفاعت کی) اجازت کے طلب گار ہوں گے۔ آپ ﷺ کو اجازت دے دی جائے گی۔ پھر امانت اور رحم آکر پل صراط کے دونوں اطراف میں کھڑے ہو جائیں گے۔ پل صراط جہنم پر تانا ہوا پل ہو گا جس پر سے لوگ اپنے اعمال کے حساب سے گزریں گے۔ جو شخص دنیا میں نیک اعمال میں جلدی کرتا ہوگا وہ اس پل پر سے تیزی سے گزر جائے گا اور جو اس کے برعکس ہوں گے ان کا معاملہ بالکل الٹ ہوگا۔ ان لوگوں میں سے کچھ تو نجات پا کر نکل جائیں گے اور کچھ ایسے ہوں گے جو جہنم میں گر جائیں گے اور جہنم کے تہ تک ستر سال کے بعد پہنچیں گے کیونکہ جہنم کی تہ بہت دور ہے۔ اللہ کی پناہ!