العفو
كلمة (عفو) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعول) وتعني الاتصاف بصفة...
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام عضباء تھا۔ کوئی اونٹنی اس سے آگے نہیں بڑھتی تھی یا (راوی نے) یوں کہا وہ پیچھے رہ جانے کے قریب نہ ہوتی پھر ایک دیہاتی اپنے ایک توانا اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور آپ ﷺ کی اونٹنی سے اس کا اونٹ آگے نکل گیا۔ مسلمانوں پر یہ بڑا شاق گزرا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کو اس کا علم ہو گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ برحق ہے کہ دنیا میں جو چیز بھی بلند ہوتی ہے (کبھی کبھی) اسے وہ گراتا بھی ہے۔
حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کی اونٹنی ’عضباء‘ کے بارے میں صحابہ سے منقول ہے کہ اس سے کوئی سواری آگے نہیں بڑھتی تھی یا وہ پیچھے نہیں رہ جاتی تھی، یہ اعرابی اپنی سواری پر آیا اور عضباء سے آگے بڑھ گیا، یہ صحابہ کرام پر گراں گزرا۔ آپ ﷺ نے جب صحابۂ کرام کی کیفیت کو محسوس کیا، تو فرمایا ”اللہ تعالیٰ برحق ہے کہ دنیا میں جو چیز بھی بلند ہوتی ہے (کبھی کبھی) اسے وہ گراتا بھی ہے“ یعنی دنیا میں بلند ہونے والی ہر چیز کو زوال ہے۔ اگر یہ بلندی دلوں میں ہو تو اسے پستی بہت جلد آتی ہے، اس لیے کہ پستی اس کی سزا ہے۔ لیکن اگر یہ ارتفاع مزاج کا حصہ نہ بنی ہو تو وہ ضرور واپس لوٹتی ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان "من الدنيا" اس بات پر دلیل ہے کہ آخرت کے کاموں میں سے جو چیز بلند ہوتی ہے اللہ اسے نہیں گراتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ“ (المجادلة: 11)۔ ترجمہ: اللہ تعالیٰ تم میں سے جو لوگ ایمان ﻻئے ہیں اور جو علم دیے گئے ہیں، اُن کے درجات بلند کر دے گا۔ آیت میں مذکور یہ لوگ جب تک اپنے علمی اور ایمانی صفات سے متصف ہوں گے ایسا ممکن نہیں کہ اللہ انہیں رسوا کرے۔ اس لیے کہ اللہ ان کو ذلیل نہیں کرتا بلکہ ان کا نام بلند کرتا ہے اور آخرت میں ان کے درجات بلند کرتا ہے۔