البصير
(البصير): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على إثباتِ صفة...
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دنوں میں کیے جانے والے اعمال سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو کسی اور دن کا عمل صالح محبوب نہیں"۔ یعنی ذی الحجہ کے دس دن۔ لوگوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلا، پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا“۔
"ان دنوں میں کئے جانے والے اعمال سے زیادہ، اللہ تعالیٰ کو، کسی اور دن کا عمل صالح محبوب نہیں" یعنی ذی الحجہ کے دس دن۔ لوگوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال، دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلا، پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا"۔ آپ ﷺ کے قول "عمل صالح" میں نماز، صدقہ، روزہ، ذکر و اذکار، تکبیر، قرآن مجید کی تلاوت، والدین کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی، مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک اور پڑوسیوں کے ساتھ خوش اخلاقی جیسے تمام اعمال صالحہ شامل ہیں۔ اسی بنا پر ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کا روزہ رکھنا مسنون ہے؛ کیوں کہ یہ عمل صالح کے عموم میں شامل ہے۔ البتہ یہاں دسویں دن کا روزہ چھوڑ کر مراد ہے؛ کیوں کہ عید کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت ہے۔ اس حدیث سے ماہ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں عمل صالح کرنے کی فضیلت کی دلیل ملتی ہے۔ نیز اس بات کی دلیل ملتی ہے کہ جہاد افضل ترین اعمال میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے دریافت کیا کہ ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟“ اور اس میں اس کم یاب حالت کی فضیلت کی بھی دلیل ہے کہ جس میں ایک شخص اپنی جان اور مال (اپنے ہتھیار اور سواری)کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لیے نکل پڑتا ہے، پھر شہادت کے مرتبے کو پالیتا ہے اور دشمن اس کے اسلحے اور سواری پر قابض ہوجاتا ہے۔ اپنی جان اور مال کو اللہ عز وجل کی راہ میں نچھاور کرنے والا یہ شخص افضل ترین مجاہدین میں شمار ہوگا اور یہ جہاد، ذی الحجہ کے دس دنوں میں کیے جانے والے اعمال سے افضل ہوگا، اور جب یہ جہاد، ان دس دنوں میں وقوع پذیر ہوجائے تو اس کی دوچند فضیلت کے کیا کہنے!۔