الشهيد
كلمة (شهيد) في اللغة صفة على وزن فعيل، وهى بمعنى (فاعل) أي: شاهد،...
عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں زمانۂ جاہلیت میں خیال کرتا تھا کہ لوگ گمراہی میں مبتلا ہیں اور وہ کسی دین پر نہیں ہیں اور بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ پھر میں نے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ مکہ میں کچھ خبریں بیان کرتا ہے۔ چنانچہ میں اپنی سواری پر بیٹھا اور اس شخص کے پاس (مکے) آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ چھپ کر اپنا دعوتی کام کر رہے ہیں اور آپ کی قوم آپ ﷺ پر دلیر ہے۔ بہرحال میں نے نرمی سے کام لیتے ہوئے آپ ﷺ سے ملنے کی تدبیر کی یہاں تک کہ میں مکے میں آپ ﷺ کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے آپ ﷺ سے پوچھا: آپ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’میں نبی ہوں۔‘‘ میں نے کہا: ’نبی کون ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (جسے اللہ اپنے احکام دے کر بھیجے اور) ’’مجھے اللہ نے بھیجا ہے۔‘‘ میں نے دریافت کیا: آپ کو اللہ نے کس چیز کے ساتھ بھیجا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس نے مجھے صلہ رحمی کا حکم دینے، بتوں کو توڑنے اور اس بات کا پیغام دے کر بھیجا ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے، اس کے ساتھ کسی چيز کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ اس کام پر آپ کے ساتھ اور کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک آزاد شخص اور ایک غلام۔‘‘ (راوی کا کہنا ہے کہ) اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ میں نے عرض کیا: میں (بھی) آپ کا پیروکار ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم آج اس کی ہرگز طاقت نہیں رکھتے۔ کیا تم میرا اور لوگوں کا حال نہیں دیکھ رہے؟ لھٰذا تم (ابھی) اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ جاؤ، جب تم میری بابت سنو کہ میں غالب آ گیا ہوں تو پھر میرے پاس آنا۔” وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے اہل خانہ کے پاس واپس آگیا اور رسول اللہ ﷺ (بالآخر مکہ چھوڑ کر) مدینہ تشریف لے آئے۔ ایسے میں میرے اہل خانہ میں سے کچھ لوگ مدینہ آئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جو شخص مدینہ آیا ہے اس کا کیا ہوا؟ انہوں نے بتایا کہ لوگ تو بہت تیزی سے اس کی طرف راغب ہو رہے ہیں جب کہ خود اس کی اپنی قوم اسے قتل کر دینا چاہتی تھی لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ لہذا میں مدینہ آ گیا اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: “اے اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟” آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، تم وہی ہو جو مجھے مکہ میں ملے تھے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے آپ کو سکھلائی ہیں اور میں ان سے ناواقف ہوں۔ مجھے نماز کے بارے میں بتائیں۔ آپﷺنے فرمایا: ’’تم صبح کی نماز پڑھو اور اس کے بعد نماز سے رکے رہو یہاں تک کہ سورج ایک نیزے کی مقدار کے برابر بلند ہو جائے۔ کیونکہ سورج جب طلوع ہوتا ہے تو شیطان کے دو سینگوں کے مابین طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کافر لوگ اسے سجدہ کرتے ہیں۔ پھر تم نماز پڑھو۔ اس لیے کہ فرشتے نماز میں گواہ ہوتے ہیں اور اس میں حاضر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ سایہ نیزے کے برابر ہو جائے۔ پھر (اس وقت) نماز پڑھنے سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنم بھڑکائی جاتی ہے۔ پھر جب سایہ بڑھنے لگے تو نماز پڑھو۔ اس لیے کہ فرشتے نماز میں گواہ ہوتے ہیں اور اس میں حاضر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھ لو۔ پھر سورج کے غروب ہونے تک نماز سے رکے رہو کیونکہ یہ شیطان کے دوسینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کافر لوگ اسے سجدہ کرتے ہیں۔‘‘ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! وضو کے بارے میں بھی مجھے بتائیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: “تم میں سے جو بھی آدمی وضو کے پانی کو اپنے قریب کرکے کلی کرتا ہے اورناک میں پانی ڈال کر اسے جھاڑتا ہے تو اس کے چہرے کے سارے گناہ اس کی داڑھی کے کناروں سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے گناہ اس کی انگلیوں کے کناروں سے پانی کے ساتھ نکل کر گر جاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کے گناہ اس کے بالوں کے کناروں سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے دونوں پیر ٹخنوں تک دھوتا ہے تو اس کے دونوں پیروں کے گناہ پانی کے ساتھ اس کی انگلیوں سے نکل کر گر جاتے ہیں۔ چنانچہ (اس کے بعد) اگروہ کھڑا ہوا اور نماز پڑھی، پس اللہ کی اس کے شایانِ شان حمد و ثنا اور بزرگی بیان کی اور اپنے دل کو اللہ کے لیے فارغ کرلیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہو کر نکلتا ہے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ کے صحابی ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا تو ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے عمرو بن عبسہ! دیکھو تم کیا بیان کر رہے ہو۔ ایک ہی جگہ پر اس آدمی کو اتنا ثواب مل جائے گا؟ اس پر عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے: "اے ابو امامہ! میری عمر بڑی ہو گئی، میری ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور میری موت قریب آگئی ہے، اب مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں اللہ پر اور اللہ کے رسول ﷺ پر جھوٹ بولوں۔ اگر میں نے یہ حديث رسول اللہ ﷺ سے ایک مرتبہ، دو مرتبہ، تین مرتبہ، حتی کہ سات مرتبہ تک نہ سنی ہوتی تو میں کبھی یہ حدیث بیان نہ کرتا، لیکن میں نے تو اسے اس سے بھی زیادہ مرتبہ سنی ہے۔
عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ عنہ بيان فرما رہے ہیں کہ ان کا زمانۂ جاہلیت میں کیا حال تھا اور کیسے اللہ تعالی نے اسلام کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی۔زمانۂ جاہلیت ہی میں ان کے دل میں ایک روشنی موجود تھی جس کی وجہ سے ان پر واضح ہو گیا تھا کہ یہ لوگ باطل پر اور شرک و گمراہی پر ہیں۔ چنانچہ وہ اس عقیدہ کے حامل نہیں تھے جو ان لوگوں کا عقیدہ تھا۔ پھر انہوں نے سنا کہ مکہ میں اس زمانے ميں ایک شخص کا ظہور ہوا ہے جو خبریں دیتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور نبی ﷺ کے پاس آئے، تو دیکھا کہ نبی ﷺ کفارِ قریش کی اذیت کےخوف سے چھپ کر اپنی دعوت دے رہے ہیں۔ عمر و بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "بہرحال میں نے نرمی سے کام لیتے ہوئے آپ ﷺ سے ملنے کی تدبیر کی یہاں تک کہ میں مکے میں آپ ﷺ کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے آپ ﷺ سے پوچھا: آپ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’میں نبی ہوں۔‘‘ میں نے کہا: نبی کون ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(جسے اللہ اپنے احکام دے کر بھیجے اور) مجھے اللہ نے بھیجا ہے۔‘‘ میں نے دریافت کیا: آپ کو اللہ نے کس چیز کے ساتھ بھیجا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس نے مجھے صلہ رحمی کا حکم دینے، بتوں کو توڑنے اور اس بات کا پیغام دے کر بھیجا ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے، اس کے ساتھ کسی چيز کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔‘‘ آپ ﷺ نے ان الفاظ کے ذریعے اللہ عز وجل کی طرف دعوت دی اور اس عظیم دین کی خوبیوں کو بیان کیا۔ ان میں سب سے اہم اللہ عز و جل کی توحید اور مکارمِ اخلاق ہیں۔ آپ ﷺ نے اس کے سامنے ان باتوں کا ذکر کیا جو لوگوں کو اپنی عقل کی بنا پر بھی معلوم ہو جاتی ہیں کہ ان بتوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ اسی لیے یہ صحابی اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی یہ جانتے تھے کہ مشرکین کا طریقۂ عبادت باطل ہے اور وہ حق کے متلاشی تھے، اللہ تبارک وتعالی ان سے راضی ہو۔ چنانچہ جب وہ نبی ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے انہیں بتایا کہ اللہ تعالی نے ان باتوں کے ساتھ آپ ﷺ کو مبعوث فرمايا ہے۔ اور فرمایا: ’’اللہ نے مجھے صلہ رحمی کا حکم دینےکے لیے بھیجا ہے۔‘‘ صلہ رحمی مکارم اخلاق میں سے ہے۔ اہل مکہ یہ باتیں پھیلا رہے تھے کہ نبی ﷺ قطع رحمی کا مقصد لے کر آئے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ قطع رحمی کے ليے نہیں بلکہ صلہ رحمی کا حکم لے کر آئے ہیں۔ اوربتوں کو توڑنے کے لیے۔‘‘ یعنی اس چيز کو توڑنے کے لیے جس کی اللہ کو چھوڑ کر پوجا کی جاتی ہے۔ ’’اوریہ کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے، اس کے ساتھ کسی چيز کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔‘‘ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ سے پوچھا: ’’اس کام پر آپ کے ساتھ اور کون ہے؟‘‘ یعنی آپ کے ساتھ اور کون ہے جو اس دین میں داخل ہوچکا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: “ایک آزاد شخص اور ایک غلام۔” آزاد شخص ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے جب کہ غلام بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ میں (بھی) آپ کا پیروکار ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم آج اس کی ہرگز طاقت نہیں رکھتے۔‘‘ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر وہ آپ ﷺ کی اتباع کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ مکہ میں رہنے کے لیے اپنی قوم کو چھوڑ دیتے تو آپ ﷺ انہیں کفار سے نہ بچا سکتے چنانچہ آپ ﷺ نے ان سے کہا: مسلمان ہو کر اپنی قو م میں ہی رہو یہاں تک کہ یہ دین غالب آجائے۔ اس وقت تم آکر ہمارے ساتھ شامل ہو جانا۔ آپ ﷺ نے ایسا ہمدردی اور از راہِ شفقت و رحمت فرمایا کیونکہ یہ شخص کمزور تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’اس وقت تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ کیا تم میرا اور لوگوں کا حال نہیں دیکھ رہے؟‘‘ یعنی یہ لوگ بہت زیادہ ہیں اور ہمیں اذیت دے رہے ہیں اور میرا ان پر کوئی بس نھیں چلتا، تو میں تمہارا دفاع کیسے کر سکوں گا؟! “آپ ﷺنے فرمایا: لھٰذا تم (ابھی) اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ جاؤ، جب تم میری بابت سنو کہ میں غالب آ گیا ہوں تو پھر میرے پاس آنا۔‘‘ معنی یہ ہے کہ اپنے اسلام پر قائم رہو یہاں تک کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ میں غالب آ گیا ہوں تو اس وقت میرے پاس آنا۔ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’میں اپنے اہل خانہ کے پاس آگیا اور رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لے آئے اور میں اپنے اہل خانہ میں تھا۔ چنانچہ میں نے خبروں کی جستجو شروع کردی۔‘‘ کیونکہ اسلام ان کے دل میں گھر کر چکا تھا۔ وہ کہتے ہیں: ’’اور جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لے آئے تو میں (آپ کی بابت) لوگوں سے پوچھتا رہتا۔ یہاں تک کہ ہمارے خاندان کے کچھ لوگ مدینہ سے آئے تو میں نے ان سے پوچھا: مدینہ آنے والے اس آدمی کا کیا ہوا؟‘‘ گویا کہ وہ اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھ رہے تھے اور اپنی قوم کے ڈر کی وجہ سے اسے ظاہر نہیں کر رہے تھے۔ ’’انہوں نے کہا: لوگ تو اس آدمی کی طرف بہت تیزی سے راغب ہو رہے ہیں ليكن خود اس کی اپنی قوم اسے قتل کر دینا چاہتی تھی لیکن وہ ایسا نہیں كر سکے۔‘‘ عمرو بن عبسہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ چلا آیا اور آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ تم وہی ہو جو مجھے مکہ میں ملے تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ سے عرض کيا کہ ’’اے اللہ کے رسول! آپ مجھے وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے آپ کو سکھلائی ہیں اور میں ان سے ناواقف ہوں۔‘‘ وہ نبی ﷺ سے پوچھ رہے ہیں کہ اسلام کے وہ کون سے احکام ہیں جو آپ پر نازل ہوئے ہیں۔ مجھے وہ کچھ سکھائیں جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے اور جس سے میں ناواقف ہوں۔ مجھے نماز کے بارے میں بتائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: “صبح کی نماز پڑھو۔” یعنی اس کے وقت میں اسے ادا کرو۔ “پھر نماز سے رکے رہو۔ یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے۔‘‘ یعنی صبح کی نماز کے بعد کوئی نماز نہیں ہے۔ اس وقت تک نماز نہ پڑھو جب تک کہ سورج طلوع نہ ہوجائے۔ تاہم آیا جب سورج طلوع ہو رہا ہو تو اس وقت آدمی نفل نماز پڑھ سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: “اس وقت تک نماز سے رکے رہو جب تک کہ سورج ایک نیزے کے بقدر بلند نہ ہو جائے۔” یعنی دیکھنے والے کی نگاہ ميں۔ سورج شیطان کے دو سینگوں کے مابین طلوع ہوتا ہے۔” سورج کے طلوع ہونے کے اس وقت میں کفار سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔ لھٰذا مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بالارادہ اس وقت تک نماز کو موخر کرے اور نہ ہی سورج کے طلوع ہونے کے وقت اس کے لیے نفل نماز پڑھنا جائز ہے یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے۔ جنتری میں آپ کو ''وقت الشروق'' لکھا ہوا ملے گا۔ یہاں مراد یہی وقت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سورج جس وقت طلوع ہوتا ہے تو شیطان کے دو سینگوں کے مابین طلوع ہوتا ہے اور کفار اسے سجدہ کرتے ہیں۔” چنانچہ نبی ﷺ نے ہمیں کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر تم نماز پڑھو۔ اس لیے کہ فرشتے نماز میں گواہ ہوتے ہیں اور اس میں حاضر ہوتے ہیں۔‘‘ یعنی دن کے فرشتے اس نماز میں حاضر ہوتے ہیں تاکہ اسے لکھ سکیں اور جس نے نماز پڑھی ہو اس کے حق میں گواہی دے سکیں۔ چنانچہ اس کا معنی وہی ہے جو ایک دوسری روایت کا ہے جس میں "مشهودة مكتوبة" کے الفاظ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہاں تک کہ سایہ (کم ہو کر) نيزے کے برابر ہو آجائے تو اس وقت نماز سے رک جاو۔” یعنی بوقت زوال جب سورج آسمان کے بالکل درمیان میں انسان کے سر کے عین اوپر آجاتا ہے اور سارا سایہ اس کے پاؤں تلے ہوجاتا ہے تو اس وقت کے بارے میں آپ ﷺ ان سے فرما رہے ہیں کہ اس میں نماز نہ پڑھو۔ یہ تقریبا اتنا وقت ہوتا ہے جس میں دو رکعتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ اس وقت میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا: “اس وقت جہنم بھڑکائی جاتی ہے۔” یہ وہ وقت ہے جس میں نماز پڑھنا حرام ہے۔ اس وقت میں آدمی کو انتظار کرنا چاہیے یہاں تک کہ نماز ظہر کے لیے اذان دے دی جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب سایہ بڑھنے لگے۔‘‘ سایہ گھٹتا اور کم ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ آپ کے قدموں تلے آجاتا ہے اور پھر اس کے بعد آپ کے دوسری جانب منتقل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ظہر کی اذان کے وقت یہ سایہ مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہونے لگتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “جب سایہ بڑھنے لگے تو اس وقت نماز پڑھو۔ اس لیے کہ فرشتے نماز میں گواہ ہوتے ہیں اور اس میں حاضر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھ لو۔” یعنی عصر کے وقت تک فرض نماز بھی پڑھو اور نفل بھی۔ نماز پڑھنے کے لیے یہ وقت کھلا ہے اور اس میں آپ جتنی چاہیں نفل نماز پڑھیں۔ اس میں کوئی کراہت نہیں تاہم جب آپ عصر پڑھ لیں تو اس کے بعد سورج کے غروب ہو جانے تک نفل نماز نہ پڑھیں۔ پھر نماز سے رکے رہو یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے۔‘‘ سورج غروب ہونے سے کچھ دیر قبل ایک دفعہ پھر سے وہ وقت آجاتا ہے جس میں نماز پڑھنا حرام ہے جیسا کہ سورج کے طلوع ہونے کے وقت تھا۔ یہاں حرمت کی علت یہ ہے کہ سورج جب غروب ہوتا ہے تو شیطان کے دو سینگوں کے مابین غروب ہوتا ہے۔ چنانچہ مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ نماز عصر کو جان بوجھ کر مغرب سے کچھ دیر پہلے تک موخر کرے، کیونکہ ایسا کرنے سے اس کی سورج پرست کفار کے ساتھ مشابہت ہو گی اور مسلمان ایسا کرنے یعنی نماز عصر کو اس وقت تک موخر کرنے کی صورت میں گویا کفار کی تقلید کرے گا۔ نبی ﷺ نے اسے منافقین کی نماز کا نام دیا ہے۔ کیونکہ منافق ہی ایسا کرتا ہے کہ سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب وہ زرد ہوجاتا ہے تو جلدی جلدی ٹھونگ مار کر چار رکعت پڑھ لیتا ہے اور اس میں بہت کم اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ چنانچہ کفار اور منافقین کی مشابہت سے بچیں اور نماز کو جان بوجھ کر سورج کے زرد پڑ جانے تک موخر کرنے سے پرہیز کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “یہ شیطان کے دو سینگوں کے مابین غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ عمر و بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ’’اے اللہ کے نبی! وضو کے بارے میں بھی مجھے بتائیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: “تم میں سے جو شخص بھی وضو کے پانی کو اپنے قریب کرکے کلی کرتا ہے اورناک میں پانی ڈال کر اسے جھاڑتا ہے، تو اس کے چہرے، منہ اور ناک کے سارے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔” یعنی جب انسان وضو کرتا ہے تو پانی کا آخری قطرہ گرنے کے ساتھ اس کے گناہ بھی جھڑ جاتے ہیں۔ پھر عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو سنائی تو ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: “اے عمرو بن عبسہ! دیکھو تم کیا بیان کر رہے ہو۔ ایک ہی جگہ پر اس آدمی کو اتنا ثواب مل جائے گا؟ یعنی انہیں یہ بہت زیادہ لگا کہ آدمی کو ایک ہی جگہ پر اتنا کچھ دے دیا جائے کہ جب وہ وضو کرے تو اس کے ساتھ اس کے سارے گناہ جھڑ جائیں اور پھر نماز پڑھ کر جب وہ فارغ ہو تو وہ اس طرح گناہوں سے پاک صاف ہو جائے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں تھا۔ وہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے کہہ رہے ہیں کہ اچھی طرح سے یاد کرو کہ کہیں نبی ﷺ کی فرمائی ہوئی کوئی بات تم بھول نہ گئے ہو۔ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے اس پر یہ جواب دیا کہ: “اے ابو امامہ! میری عمر بڑی ہو گئی، میری ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور میری موت قریب آگئی ہے، اب مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں اللہ پر اور اللہ کے رسول ﷺ پر جھوٹ بولوں؟” یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نبی ﷺ کے صحابہ آپﷺ پر یا اپنے رب سبحانہ وتعالی پر کوئی جھوٹی بات کہیں۔ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے کہا: “اور نہ ہی مجھے اس بات کی کوئی ضرورت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھوں۔ اگر میں نے یہ حديث رسول اللہ ﷺ سے ایک مرتبہ، دو مرتبہ، تین مرتبہ، حتی کہ سات مرتبہ تک نہ سنی ہوتی تو میں کبھی یہ حدیث بیان نہ کرتا۔” یعنی آپ ﷺ نے یہ بات ایک دفعہ نہیں بلکہ سات دفعہ فرمائی۔ عربوں کے ہاں سات کا عدد کثرت پر دلالت کرتا ہے اور شاید نبی ﷺ نے اس سے بھی زیادہ دفعہ یہ بات ارشاد فرمائی تھی۔ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “لیکن میں نے تو اسے اس سے بھی زیادہ مرتبہ سنی ہے۔‘‘