النصير
كلمة (النصير) في اللغة (فعيل) بمعنى (فاعل) أي الناصر، ومعناه العون...
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی ایسا دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو، وہ (اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟“۔
«ما من يوم أكثر من أن يعتق الله عبدًا من النار من يوم عرفة» یعنی عرفہ کے دن کے علاوہ کسی دن اتنے لوگوں کو اللہ تعالی جہنم سے خلاصی نہیں دیتا ہے جتنا عرفہ کے دن دیتا ہے۔ «وإنَّه ليدنو، ثم يُباهي بهم الملائكةَ» یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے حقیقتاً قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے رشک کرتا ہے اور ان کے سامنے حاجیوں کی فضیلت اور ان کا شرف بتاتا ہے۔ اہل السنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جلالت و عظمتِ شان کے مطابق سچ مُچ اپنے بندوں سے قریب ہے، وہ عرش پر مستوی ہے، مخلوق سے الگ ہے اور حقیقت میں ان سے قریب اور پاس ہوتا ہے۔ «فيقول: ما أراد هؤلاء؟» یعنی یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ کہ انہوں نے اپنے گھر بار کو اور وطنوں کو چھوڑا، اپنا مال خرچ کرکے، جسموں کو تھکا کر آئے، یعنی یہ اپنے گناہوں کی مغفرت، اللہ کی رضا، اس کے قرب اور ملاقات کے سوا کچھ نہیں چاہتے۔ جو وہ چاہیں گے وہ انہیں ملے گا، ان کے درجات ان کی نیتوں کے بقدر ہوں گے۔