البحث

عبارات مقترحة:

الواسع

كلمة (الواسع) في اللغة اسم فاعل من الفعل (وَسِعَ يَسَع) والمصدر...

الشافي

كلمة (الشافي) في اللغة اسم فاعل من الشفاء، وهو البرء من السقم،...

الجبار

الجَبْرُ في اللغة عكسُ الكسرِ، وهو التسويةُ، والإجبار القهر،...

اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں جو ہر آواز سنتا ہے، خولہ رسول اللہ کے پاس آ کر اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگیں، آپ اُن کی باتیں مجھ سے چھپا رہے تھے، چنانچہ اللہ عزوجل نے ”قَدْ سَمِعَ اللَّـهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّـهِ وَاللَّـهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا“ (ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا)۔ نازل فرمائی۔

شرح الحديث :

خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کی شادی اوس بن صامت سے ہوئی تھی۔ اوس رضی اللہ عنہ نے خولہ رضی اللہ عنہا سے کہا تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے یعنی تو مجھ پر حرام ہے۔ چنانچہ وہ آپ کے پاس چلی گئیں اور آپ کو اپنا قصہ سنایا۔ آپ نے فرمایا، تو اس پر حرام ہو چکی ہے۔ وہ آہستہ آواز میں یہ بات کہہ رہی تھی (ان کی گفتگو) ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے قریب ہونے کے باوجود مخفی رہی، (خولہ کہہ رہی تھیں) کہ اب جب کہ میں بوڑھی ہو چکی ہوں، اس نے میرے ساتھ ظہار کر لیا؟ میں اللہ تعالیٰ سے اپنی بچوں کے حال کی شکایت کرتی ہوں، اگر میں اسے اپنے ساتھ رکھوں تو وہ بھوکے رہیں اور اگر میں انہیں اُن کے پاس چھوڑ دوں تو وہ انہیں ضائع کردیں گے۔ یہ خولہ رضی اللہ عنہا کا آپ کے سامنے مجادلہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا ’’قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ واللهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُما‘‘(سورہ مجادلہ: 1)۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا «الحمدُ للهِ الذي وَسِعَ سَمْعُه الأصواتَ» یعنی تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس کی سماعت تمام آوازوں کا احاطہ کی ہوئی ہے، اس سے کوئی چیز فوت نہیں ہو سکتی اگر چہ پوشیدہ ہو۔ «لقد جاءت خَوْلةُ إلى رسولِ الله تَشْكو زَوْجَها، فكان يخفى عليَّ كلامُها، فأنزل اللهُ عزَّ وجلَّ: ﴿قد سَمِعَ اللهُ قولَ التي تُجَادِلُك في زَوْجِها وتشتكي إلى اللهِ واللهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُما﴾ [المجادلة: 1]» الآية» یعنی جب خولہ رضی اللہ عنہا آ کر آپ سے اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگی، تو دھیمی آواز میں بول رہی تھیں تاکہ قریب میں اُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نہ سن لیں، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ساتوں آسمانوں کے اوپر اس کی بات سنی اور مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ (یہ آیت) اللہ تعالیٰ کے سننے کی صفت سے متصف ہونے کی سب سے مضبوط دیلیل ہے۔ یہ دین میں ایک بدیہی سا طے شدہ امر ہے، اس کا انکار صرف وہی شخص کرتا ہے جو راہِ ہدایت سے بھٹک چکا ہو۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی گفتگو اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ صحابہ کرام ظاہرِ نصوص یعنی جس کی طرف پہلی دفعہ سمجھ میں آتی ہے، پر ایمان لائے تھے۔ اور یہی اللہ تعالیٰ کو ان سے اور دوسرے مکلف لوگوں اور اپنے رسول سے مطلوب تھا۔ اس لیے کہ یہ جس پر وہ ایمان لائے تھے اور جس کا انہیں اعتقاد تھا اگر یہ غلط ہوتا تو (اللہ) ان کو اس پر قائم نہ رکھتا اور ان کے سامنے درست بات بیان کردی جاتی۔ جب کہ کسی سے بھی ان نصوص کے ظاہری مفہوم میں تاویل منقول نہیں، نہ ہی صحیح سند سے اور نہ ہی ضعیف سند سے، حالانکہ اس کے اسباب بکثرت موجود تھے۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية