البحث

عبارات مقترحة:

البصير

(البصير): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على إثباتِ صفة...

السبوح

كلمة (سُبُّوح) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فُعُّول) من التسبيح،...

النصير

كلمة (النصير) في اللغة (فعيل) بمعنى (فاعل) أي الناصر، ومعناه العون...

جب تم میں سے کو ئی شخص نماز پڑھے اور اسے یہ پتہ نہ چلے کہ آیا اس نے زیادہ پڑھی ہے یا کم تو بیٹھے ہونے کی حالت میں دو سجدے کر لے۔ پھر اگر اس کے پاس شیطان آئے اوراس سے کہے (یعنی دل میں وسوسہ ڈالے) کہ تیرا وضو ٹوٹ گیا ہے تو اس سے کہے: تو جھوٹا ہے بجز اس کے کہ وہ اپنی ناک سے بو سونگھ لے یا اپنے کان سے آواز سن لے۔

شرح الحديث :

حدیث کا مفہوم: "إذا صلى أحدكم فلم يَدْرِ زاد أم نَقص'' یعنی جب کوئی انسان نماز پڑھے اور پھر دورانِ نماز اسے شک لاحق ہو جائے کہ آیا اس کی نماز پوری ہو گئی یا پھر اس میں کچھ کمی بیشی ہو گئی ہے تو اس صورت میں وہ کیا کرے؟ "فلْيِسْجُد سجدتين وهو قاعد" یعنی جس شخص کو اپنی نماز میں شک لاحق ہو جائے کہ اس نے کچھ کمی بیشی کر دی ہے تو اس پر تشہد پڑھ لینے کے بعد دوسجدے کرنا واجب ہے"۔ وهو قاعد "۔ یعنی سجدہ سہو کرنے کے لیے اسے کھڑا ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ بیٹھے بیٹھے ہی سجدہ کر لے۔ حدیث کا ظاہری معنیٰ تو یہی ہے کہ نمازی کو جب شک لاحق ہو جائے اور اسے یہ پتہ نہ چلے کہ آیا اس نے نماز میں کچھ زیادتی کر دی ہے یا کمی تو اس حدیث کے ظاہر کی رو سے اس پر صرف یہ واجب ہوتا ہے کہ وہ سجدے کر لے۔ تاہم اس حدیث کے ظاہر سے صحیح مسلم میں موجود ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا منطوق مخالفت رکھتا ہے جس میں اس بات کا بیان ہے کہ نبی نے فرمایا: " جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک لاحق ہو جائے اور اسے یہ پتہ نہ چلے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار تو وہ شک کو دور کرے اور یقین پر عمل کرے۔" چنانچہ ایسا شخص یہ سمجھے گا کہ اس نے تین رکعات پڑھی ہیں کیونکہ یہ یقینی ہیں جب کہ چار میں شک ہے۔ اس لیے اس صورت میں شک کو چھوڑ کر یقین پر عمل کرنا واجب ہے جو کہ کم تر تعداد ہو گی۔ " فإذا أتَاه الشيطان، فقال: إنْك قد أَحْدَثْتَ " یعنی جب اس کی نماز میں شیطان آکر اس کے دل میں وسوسہ ڈالنا چاہے اور اسے یہ خیال دلائے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی نے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کے پاس اس کی نماز میں شیطان آ کراس کی سرین میں پھونک مارتا ہے جس سے اسے یوں لگتا ہے جیسے اس کا وضو ٹوٹ گیا ہو۔ "فلْيَقل: كَذَبت، إلا ما وجَد ريحًا بأنْفِه، أو صوتًا بأُذنه." یعنی وہ ایسا اپنے دل میں کہے گا کیونکہ دوران نماز نمازی کے لیے گفتگو کرنا ممنوع ہے اور اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ آپ نے فرمایا: اس نماز میں لوگوں کی آپس کی گفتگو میں سے کوئی گفتگو کرنا جائز نہیں۔ اس طرح جب بندے کی نماز میں شیطان آ کر اس کے دل میں وسوسہ ڈالے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے تو وہ اپنے دل میں کہے کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ اور اپنی نماز کو جاری رکھے اور صرف تب ہی نماز کو توڑے جب اسے یقین ہو جائے کہ اس کا وضو ٹوٹ چکا ہے بایں طور کہ یا تو اسے بو آ جائے یا پھر وہ آواز سن لے۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية