المؤخر
كلمة (المؤخِّر) في اللغة اسم فاعل من التأخير، وهو نقيض التقديم،...
عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جعفر بن ابوطالب کے گھر والوں کو تین دن کی مہلت دی۔ پھر آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ''آج کے بعد میرے بھائی پر مت رونا۔'' پھر فرمایا: ''میرے بھتیجوں کو میرے پاس لاؤ۔'' چنانچہ ہمیں لایا گیا، اس وقت ہم چوزوں کی طرح لگ رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''نائی کو میرے پاس بلاؤ۔'' اور آپ نے اسے حکم دیا تو اس نے ہمارے سر مونڈے۔
حدیث کا مفہوم: ''نبی ﷺ نےجعفر رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کو تین دن کی مہلت دی اور پھر ان کے پاس تشریف لائے۔“ غزوہ موتہ میں جب جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو آپ ﷺ ان کی وفات کے تین دن بعد ان کے گھر والوں کے پاس آئے۔ آپ ﷺ نے تین دن تک ان کو ان کے حال پر چھوڑے رکھا تا کہ ان کے دلوں کو اطمینان و تسلی ہو جائےاور ان کے دلوں میں موجود رنج و غم زائل ہوجائے۔ پھر آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”آج کے بعد تم میرے بھائی پر مت رونا“۔ یعنی تین دن کے بعد آپ ﷺ نے انہیں رونے دھونے سے منع فرما دیا کیونکہ ابتدائی صدمہ اور رنج و غم کا وقت لمبا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ یہاں یہ ممانعت تنزیہی ہے کیونکہ تین دن کے بعد بھی رونا مباح ہے جب تک کہ اس کے ساتھ کسی حرام کا ارتکاب نہ ہو۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”میرے بھتیجوں کو میرے پاس لاؤ۔“ یہ محمد، عبد اللہ اور عوف رضی اللہ عنہم تھے۔ "چنانچہ ہمیں لایا گیا جب کہ ہم ایسے لگ رہے تھے جیسے چوزے ہوں"۔ ان کی یہ حالت اپنے والد کو کھو دینے پر طاری ہونے والے غم کی وجہ سے تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نائی کو بلاؤ۔ نائی کے آنے پر آپ ﷺ نے اسے حکم دیا تو اس نے ہمارے سر مونڈے“۔ یعنی نبی ﷺ نے نائی کو ان کے سر مونڈنے کا حکم دیا۔ چنانچہ حکم کی تعمیل میں ان کے سر مونڈ دیے گئے۔ کیوں کہ نبی ﷺ نے دیکھا کہ ان کی ماں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اللہ کے راستے میں شہید ہو جانے والے اپنے شوہر کے غم میں مبتلا ہونے کی وجہ سےان کے بالوں کو سنوار نہیں پا رہی ہیں تو آپ ﷺ کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں ان میں میل کچیل نہ گھر کر لے اور جوئیں نہ پڑ جائیں، لہٰذا اگر ان کو ہٹا دیا جائے تو اس میں فائدہ ومصلحت اور ان کی والدہ کے لیے راحت و سکون کا باعث ہے جو اپنے اوپر آپڑنے والی مصیبت کے سبب اپنے بچوں کے بالوں کی دیکھ بھال پر توجہ نہیں دے پارہی ہیں۔ نوٹ: یہ بات معلوم ہے کہ مصیبت کے وقت سر منڈانا جائز نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ: "رسول اللہ ﷺ نے صالقہ، حالقہ اور شاقہ پر لعنت فرمائی"۔ حالقہ اس عورت کو کہتے ہیں جو مصیبت کے وقت اپنے بال منڈا دیتی ہے۔ شاقہ وہ عورت ہے جو کسی مصیبت کے آنے پر اپنے کپڑوں کو پھاڑتی ہے اور صالقہ اس عورت کو کہا جاتا ہے جو بوقت مصیبت با آواز بلند بین کرتی ہے۔ لیکن جعفر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کے بچوں کے بال منڈانے کا مقصد یہ تھا کہ ان کی ماں ان کے سر کے بالوں کی دیکھ بھال پر توجہ نہیں دے پا رہی تھیں۔ چنانچہ نبی ﷺ کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں ان میں جوئیں نہ پڑ جائیں اس لئے آپ ﷺ نے انہیں مونڈنے کا حکم دیا۔ یہ مونڈنا مصیبت سے متاثر ہو کر نہیں تھا۔ عون المعبود شرح سنن أبي داود(11/164) شرح رياض الصالحين لابن عثيمين(6/382) شرح سنن أبي داود للعباد، سافٹ کاپی۔