المقتدر
كلمة (المقتدر) في اللغة اسم فاعل من الفعل اقْتَدَر ومضارعه...
حضرت ابوہریرہ - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ جب ثمامہ حنفی کو قیدی بنایا گیا تو صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ (گھر سے نکل کر) اس کے پاس آئے اور پوچھا: "ثمامہ! تمہارا کیا حال ہے؟" اس نے جواب دیا: اگر آپ قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا حق مانگا جاتا ہے اور اگر احسان کریں گے تو اس پر احسان کریں گے جو شکر کرنے والا ہے۔ اور اگر آپ مال ودولت چاہتے ہیں تو ہم منہ مانگا دیں گے۔ صحابۂ کرام کی خواہش تھی کہ فدیہ لے لیں، وہ کہتے تھے، انھیں قتل کرنے میں کیا فائدہ ہے؟ ایک آپ ﷺ ان کے پاس سے گزرے تو ثمامہ نے اسلام قبول کرلیا۔آپ ﷺ نے اُن کی بیڑیاں کھول دیں اور انھیں ابوطلحہ - رضی اللہ عنہ - کے باغ میں بھیج دیا اور حکم دیا کہ وہاں جاکر غسل کرلیں، انھوں نے غسل کیا اور دو رکعت نماز ادا کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ لقد حَسُن إسلام أخِيكُم‘‘ بے شک تمہارے بھائی کا اسلام بہت اچھا رہا۔
حضرت ابو ہریرہ - رضی اللہ عنہ - بتا رہے ہیں کہ جب ثمامہ -رضی اللہ عنہ- کو قیدی بنا لیا گیا اور مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا جیسا کہ بعض روایات میں مذکور ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس کی قید کے بعد صبح کے وقت اس کے پاس ملاقات کے لیے آئے اور مسلسل تین دن تک آپ ﷺ اس کے پاس آتے رہے۔ (جیسا کہ دیگر روایات میں موجود ہے) اور ہر ملاقات پر اس کو یہی پوچھتے رہے کہ ثمامہ تمہارا کیا حال ہے؟ یعنی تو کیا سوچتا ہے کہ میں تیرے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ تو وہ جواب دیتا کہ" إن تَقْتُل تَقْتُل ذَا دَم"اگر آپ قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا حق مانگا جاتا ہے اور اگر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر گزار ہے۔ یعنی اس کی طرف سے خون کا مطالبہ کرنے والے بھی ہیں اور احسان کا بدلہ دینے والے بھی "وإن تَمُنَّ تَمُنَّ على شَاكِر" ۔ اور صحیحین کی روایت میں یہ الفاظ ہیں "وإن تُنْعِم تُنْعِم على شاكر" یعنی اگر آپ مجھ پر معافی کا احسان کریں گے تو معاف کرنا صاحبِ کرم لوگوں کا شیوا ہے اور آپ کی یہ نیکی ہم رائیگاں نہیں جانے دیں گے کیوں کہ آپ اس شخص پر احسان کریں گے جو اس کی باکمال حفاظت کرتا ہے اور اس کے ساتھ کی گئی نیکی کو کبھی بھولتا نہیں۔ "وإن تُرِد المال"یعنی اگر آپ کو میری رہائی کے عوض مال چاہیے "نُعْطِ منه ما شِئْتَ" تو ہم آپ کو منہ مانگا دیں گے۔ "وكان أصحاب النبي ﷺ يُحِبُّون الفِدَاءَ، ويقولون: ما نَصنع بقَتِل هذا؟ "یعنی صحابہ - رضی اللہ عنہم - فدیہ لینا چاہتے تھے، خواہ اُس کی شکل ثمامہ کی رہائی کے بدلے مال کا معاوضہ ہو یا کسی کافر قیدی کے بدلے کسی مسلمان قیدی کی رہائی کی شکل میں ہو، اس لیے کہ مالی معاوضہ یا کافر قیدی کے بدلے کسی مسلمان قیدی کی رہائی زیادہ بہتر ہے اور یہ مسلمانوں کے حق میں سود مند بھی ہے، اس کے برعکس ثمامہ کو قتل کرنے میں فدیہ کے بالمقابل کم فائدہ تھا۔"فمرَّ عليه النبي ﷺ يوما، فأسْلَم، فحَلَّه" یعنی جب آخری بار نبی ﷺ ثمامہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور پہلے کی طرح ان کا حال دریافت فرماتے ہوئے کہا "ما عندك يا ثمامة؟" توانھوں نے جھٹ اسلام قبول کرلیا۔ لہذا آپ ﷺ نے انھیں آزاد کردیا۔اور صحیحین کی ایک روایت میں ہے کہ ’’ انھیں آزاد کرنے کا حکم دے دیا‘‘۔ "وبَعَث به إلى حَائِط أبِي طلْحَة" یعنی جب وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیے تو نبی ﷺ نے انھیں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے باغ میں بھیجا، جس میں پانی اور کھجور کے درخت تھے، جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے "فانْطَلق إلى نَخْل قَريب من المسجد".کہ وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے ایک باغ میں گیے۔"فأَمَرَه أن يغتسل فاغتسل، وصلى ركعتين" یعنی جب وہ اسلام لے آئے تو آپ ﷺ نے انھیں غسل کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے آپ ﷺ کا حکم بجالاتے ہوئے غسل فرمایا اور پاکی حاصل کرنے کے بعد دو رکعت نماز بھی پڑھی۔ اس حدیث سے ’’قبولِ اسلام کے بعد‘‘ غسل کرنے کی مشروعیت کا پتہ چلتا ہے۔ علاوہ ازیں امام احمد اور ترمذی نے یہ بھی روایت کیا ہے قیس بن عاصم نے جب اسلام قبول کیا تو نبی ﷺنے انھیں غسل کرنے کا حکم دیا تھا۔ علامہ البانی کی اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ "فقال النبي ﷺ: لقد حَسُن إسلام أخِيكُم" یعنی نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کو ثمامہ کے اسلام لانے کی بشارت سنائی بلکہ ان کے اسلام کی بہتری کے بارے میں بھی خبر دی۔ ہوسکتا ہے انھوں نے کسی ایسی چیز کا مظاہرہ کیا ہو جو آپ ﷺ کو بھا گئی ہو اور آپ ﷺنے ان کے اسلام کو لازم پکڑنے پر ان کی تعریف کردی ہو، تاہم اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ ہوسکتا ہے اس کے بارے میں اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو بذریعہ وحی خبر دے دی ہو۔