الحكيم
اسمُ (الحكيم) اسمٌ جليل من أسماء الله الحسنى، وكلمةُ (الحكيم) في...
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ چار مواقع پرغسل فرمایا کرتے تھے؛ جنابت کی وجہ سے، جعمے کے دن، سنگھی لگوانے پر اور میت کو نہلانے کے بعد۔
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کر رہی ہیں کہ نبی ﷺ چار مواقع پر غسل فرمایا کرتے تھے۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کی تفصیل بیان کی۔ "من الجَنَابة"۔ یعنی نبی ﷺ جنابت کی وجہ سے غسل فرمایا کرتے تھے۔ یہ حدیث ضعیف ہے، تاہم جنابت کی وجہ سے غسل کرنا واجب ہے، جس کی دلیل کتاب و سنت اور علما کا اجماع ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: (وإن كنتم جنبًا فاطهروا)۔ ترجمہ: اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو۔ تو غسل کرلو۔ "ويوم الجُمعة": یعنی نبی ﷺ جعمے کی نماز کے لیے غسل فرمایا کرتے تھے نہ کہ جمعے کے دن کے لیے۔ اس کا وقت صبح صادق کے طلوع ہونے سے لے کر جعمے کی نماز کے لیے جانے تک ہے۔ افضل یہ ہے کہ اسے جمعے کی نماز کے لیے جانے کے وقت تک موخر کیا جائے۔ حدیث تو ضعیف ہے، لیکن جعمے کے لیے غسل کرنا مستحب عمل ہے، جس پر سنت رسول ﷺ دلیل ہے اور اس بارے علما کا اجماع منقول ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے: "جمعہ کے لیے غسل کرنا ہر بالغ مرد پر واجب ہے"۔ متفق علیہ۔ یہاں مراد غسل کی تاکید ہے، اصطلاحی واجب مراد نہیں ہے۔ "ومن الحِجَامة": اس سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد یہ ہے کہ نبی ﷺ جب سنگھی لگواتے، تو اس کے بعد غسل فرماتے تھے۔ البتہ یہ بات درست نہیں؛ کیوں کہ حدیث ضعیف ہے اور انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے سنگھی لگوائی، پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے غسل کے واجب ہونے کے ان اسباب میں سے سب سے آخر میں غسل میت کو ذکر کیا۔ وہ انسان جو میت کو غسل دیتا ہے، یعنی جو اسے براہ راست الٹتا پلٹتا ہے اور ملتا ہے، اگرچہ درمیان میں کوئی شے ہی کیوں نہ حائل ہو، اس پر غسل کے کچھ نہ کچھ چھینٹے تو پڑ ہی جاتے ہیں۔ بعض اوقات میت پر نجاست لگی ہوتی ہے، جو اچھل کر غسل دینے والے پر پڑ جاتی ہے۔ چنانچہ میت کو غسل دینے کے بعد اس کے خود غسل کرنے سے وہ ان اشیا سے پاک ہو جاتا ہے، جن کے بارے احتمال ہے کہ وہ اسے لگ گئی ہوں گی۔ حدیث ضعیف ہے اور میت کو غسل دینے کے بعد خود غسل کرنا مستحب ہے نہ کہ واجب۔