العزيز
كلمة (عزيز) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) وهو من العزّة،...
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: "میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیز تیار کر رکھی ہے کہ نہ کسی آنکھ نے اس (جیسی کسی چیز) کو دیکھا ہے، نہ کسی کان نے اس کے بارے میں سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال ہی آیا ہے۔ اگر تم اس بات کی تصدیق چاہو تو یہ آیت پڑھو: (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ)(السجدہ: 17) ترجمہ: ”کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، ان کے لیے پوشیده کر رکھی ہے، وہ جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔“ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک مجلس میں موجود تھا۔ اس میں جنت کا ذکر ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم گفتگو پوری فرما چکے، تو آخر میں فرمایا: "اس میں وہ کچھ ہے، جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ ہی اس کا خیال ہی کسی آدمی کے دل پر گزرا ہے۔ " پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت: "تتجافى جُنُوبهم عن المَضَاجِع" سے لے کر اللہ تعالی کے فرمان: "فلا تعلم نفس ما أُخْفِي لهم من قُرَّة أَعْيُنِ [السجدة: 16 - 17] تک تلاوت فرمائی۔
حدیث کا مفہوم: اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں یعنی ان لوگوں کے لیے، جو اس کے احکامات بجا لاتے ہیں اور اس کی منع کردہ باتوں سے اجتناب کرتے ہیں، وہ محاسن اور خیرہ کر دینے والی خوب صورت اشیا تیار کر رکھی ہیں، جنھیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا۔اور ایسی بے خود کردینے والی آوازیں اور من پسند اوصاف تیار کر چھوڑے ہیں، جنھیں کسی کان نے نہیں سنا۔یہاں بطور خاص آنکھ اور سماعت کا ذکر کیا، کیوںکہ انہی دونوں کے ذریعے زیادہ تر محسوسات کاادراک ہوتا ہے۔چکھنے، سونگھنے اور چھونے کے ذریعے ان سے کم ادراک ہوتا ہے۔ "ولا خَطر على قَلب بَشر" یعنی ان کے لیے جنت میں جو دائمی نعمتیں تیار ہیں، ان کا خیال تک کسی کے دل پرسے نہیں گزرا۔ہر وہ شے جس کا خیال انسان کے دل میں آتا ہے، جنت میں اس سے بہتر ان کے لیے موجود ہے۔کیوںکہ، انسان کے دل پر صرف انہی اشیا کا خیال آتا ہے، جنھیں وہ جانتے ہیں اور ان کے خیال کے قریب وہی اشیا آتی ہیں، جن کی وہ پہچان رکھتے ہیں۔جب کہ جنت کی نعمتیں ان سے کہیں برتر ہیں۔یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ان کے لیے بطور تکریم ہوگا۔کیوںکہ انھوں نے اللہ کے احکامات کی بجاآوری کی ہوگی، اس کی حرام کردہ باتوں سے اجتناب برتا ہوگا اور اس کے راستے میں مشقت برداشت کی ہوگی۔ چنانچہ بدلہ عمل ہی کی جنس سے سے ملے گا۔ "واقْرَؤُوا إن شِئْتُمْ"۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: "پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ) [السجدة: 17]" (فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ): اس میں تمام نفوس شامل ہیں۔ کیوںکہ سیاق نفی میں نکرہ عموم کا معنی دیتا ہے۔یعنی کسی کو یہ معلوم نہیں کہ: (مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ) یعنی ان کے لیے کیسی خیر کثیر، بے شمار نعمتیں، فرح وسرور اورلذت و خوشی رکھی ہوئی ہے۔جس طرح انھوں نے راتوں کو نماز پڑھی، دعائیں کیں اور اپنے اعمال کو مخفی رکھا، اسی طرح اللہ نے بھی انھیں ان کے عمل کی جنس سے بدلہ دیا۔بایں طور کہ ان کے اجر کو مخفی رکھا۔اسی لیے فرمایا: (جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)۔ ترجمہ: وہ جو کچھ کرتے تھے، یہ اس کا بدلہ ہے۔