البر
البِرُّ في اللغة معناه الإحسان، و(البَرُّ) صفةٌ منه، وهو اسمٌ من...
سعید بن حارث کہتے ہیں کہ ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا حکم پوچھا؟ انہوں نے کہا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آپ کے کسی سفر میں نکلا، ایک رات اپنی کسی ضرورت سے میں (آپ کے پاس) آیا تو آپ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا اور میرے (جسم کے) اوپرایک کپڑا تھا، تو میں نے اس سے اشتمال کیا (یعنی اپنے جسم پر لپیٹ لیا) اور آپ کے پہلو میں (کھڑے ہو کر) نماز پڑھی۔ جب آپ ﷺ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اے جابر! رات کو کيسے آنا ہوا؟ میں نے آپ کو اپنی ضرورت سے باخبر کيا، جب میں فارغ ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”یہ اشتمال جو میں نے دیکھا، کیسا تھا؟'' میں نے کہا ایک کپڑا تھا، یعنی تنگ تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ” اگر کپڑا کشادہ ہو تو اسے جسم پر لپیٹ لو، اور اگر تنگ ہو تو اسے تہ بند کی صورت میں باندھ لو۔“ اورصحيح مسلم کی روايت ميں ہے: ”جب کپڑا کشادہ ہو تو اس کے دونوں کناروں کو ایک دوسرے کے مخالف کندھوں پر ڈال لو (داہنے کنارے کو بائيں کندھے پراور بائيں کنارے کو داہنے کندھے پر ڈٓال لو) اور جب کپڑا تنگ ہو تو اسے اپنی کمر پر باندھ لو۔“
جابر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض سفر میں نکلے، ایک رات ان کو آپ صلی اللہ عليہ وسلم سے کچھ ضرورت پڑگئی، چنانچہ خبر کرنے کے ليے آپ کے پاس آئے تو آپ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ جابر رضی اللہ عنہ کےجسم پر صرف ایک کپڑا تھا، تو انہوں نے اسے اپنے جسم پر لپیٹ کر اس کے دونوں کناروں کو اپنے کندھے پر ڈال ليا اور آپ کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی ۔نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے ان سے دير رات ميں آنے کا سبب پوچھا تو انھوں نے اپنی وہ حاجت بتلائی جس کی وجہ وہ آئے تھے۔ چنانچہ جب اپنی ضرورت بيان کر چکے تو آپ صلی اللہ عليہ وسلم نےکپڑے میں لپٹنے کے سلسلے میں ان پر نکیر، کیونکہ وہ تنگ تھا اور انھیں حکم ديا کہ اگر کپڑا کشادہ ہے تو اسے جسم کے اوپر نيچے تمام حصے پر لپيٹ کر کندھے پر ڈال لو۔ بائيں کنارے کو داہنے کندھے پر اور داہنےکنارے کو بائيں کندھے پر ڈال لو تاکہ ازار اور چادر بن جائے اور پورا جسم ڈھک جائے۔ تو يہ سب سےزيادہ ساتر اور ہيئت کے لحاظ سے سب سے خوبصورت ہے۔اور اگر کپڑا اتنا تنگ ہوکہ اس سے ازار اور چادر دونوں نہ بن سکے تو اس کو اپنی کمر پر باندھ کر ازار بنا لو تاکہ بدن کا نچلا حصہ ڈھک جائے۔