البحث

عبارات مقترحة:

القهار

كلمة (القهّار) في اللغة صيغة مبالغة من القهر، ومعناه الإجبار،...

المقتدر

كلمة (المقتدر) في اللغة اسم فاعل من الفعل اقْتَدَر ومضارعه...

البارئ

(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...

اشاعرہ
(الْأَشَاعِرَةُ)


من موسوعة المصطلحات الإسلامية

المعنى الاصطلاحي

ایک کلامی اسلامی فرقہ ہے جو کہ ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری کی طرف منسوب ہے۔ ان کے بنیادی اصول میں سے ارجاء (عمل کو ایمان سے موخر کرنا)، جبر (انسان کو مجبور محض سمجھنا)، عقل کو (نقل پر) مقدم کرنا اور (الله تعالى كى) صفاتِ اختیاریہ کی نفی کرنا وغیرہ عقائد شامل ہیں۔

الشرح المختصر

اشاعرہ: اسلام کی طرف منسوب فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے، جو اپنے عقائد کو ثابت کرنے اور مخالفین کا رد کرنے میں اہلِ کلام کا اسلوب اختیار کرتا ہے۔ یہ فرقہ ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری (وفات:324ھ) کی طرف منسوب ہے۔ اس کا ظہور چوتھی صدی اور اس کے بعد ہوا۔ شروعات میں اشعری اعتزال کا قائل تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے کلام، اللہ تعالی کی صفات اختیاریہ اور قدر کے مسئلے میں ابن کُلاّب سے متاثر ہوا۔ پھر اشاعرہ کے عقیدہ نے ترقی کرتے ہوئے عقلی، کلامی اور صوفیانہ مناہج میں گہرائی اور توسع اختیار کیا، یہاں تک کہ آٹھویں صدی میں ایک عقلیاتی، فلسفیانہ مرجی جبری فرقہ بن گیا۔ ’اشعری‘ اپنے عقیدے میں تین مراحل سے گزرے: پہلا مرحلہ: اعتزال ہے، جسے انہوں نے ابو علی الجبّائی سے اختیار کیا جو اپنے دور میں معتزلہ کا سربراہ تھا۔ ابوالحسن اشعری چالیس سال تک اسی مذہب پر قائم رہے۔ دوسرا مرحلہ: اعتزال سے براءت اور عبد اللہ بن سعید بن کُلاب کے طریقے کی پیروی کا ہے، بایں طور کہ اشعری نے صفاتِ عقلیہ کا اثبات اور صفاتِ فعلیہ کا انکار کیا۔ یہی وہ مرحلہ ہے جس پر ان کے پیرو کاربند رہے۔ تیسرا مرحلہ: وہ ہے جب مجموعی طور پر ابوالحسن اشعری نے سلف کے منہج کی طرف رجوع کیا اور تمام صفات کو بغیر کسی تحریف اور تاویل کے ثابت مانا۔ ’اشاعرہ‘ کے اہم عقائد یہ ہیں: 1- تعارض کے وقت قرآن و سنت پر عقل کو ترجیح دینا۔ 2- عقائد میں احادیث آحاد کو نہ لینا۔ اس لیے کہ یہ ان کے ہاں علم کا فائدہ نہیں دیتیں۔ 3- توحید کو صرف توحیدِ ربوبیّت اور تثنیہ، تعدد، ترکیب اور تجزئہ کی نفی میں منحصر کرنا۔ اسی وجہ سے انہوں نے لفظِ الٰہ کی تفسیر یہ بیان کی کہ: جو اختراع پر قادرہو۔ 4- ایمان کو تصدیقِ قلبی میں محدود کرکے، اعضا وجوارح سے کیے جانے والے اعمال کو ایمان سے خارج کر دینا۔ 5- ’اشاعرہ‘ کے ہاں قرآن مخلوق ہے اور یہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں، بلکہ کلامِ نفسی ہے۔ 6- تقدیر کے باب میں جبر کا قائل ہوکر یہ کہنا کہ اعمال کے واقع ہونے میں بندے کی قدرت کا کوئی اثر نہیں ہے۔ 7- اللہ تعالیٰ کے افعال میں مطلقاً حکمت اور تعلیل کی نفی کرنا۔ 8-صرف سات صفات کو ثابت کرنا اور اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم صفاتِ اختیاریہ جیسے’استواء‘، ’نزول‘، ’کلام‘ اور ’غصہ‘ کی نفی کرنا ۔

التعريف اللغوي المختصر

أَشاعرہ: یہ ’اشعری‘ کی جمع ہے اور ’ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری‘ کی طرف منسوب ہے۔ ’اشعر‘: یمن میں ایک قبیلہ ہے۔