کنارہ (أفق)

کنارہ (أفق)


العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


زمین کے کنارے اور اس میں جو کچھ حوادث (نئی چیزیں) اور مخلوقات ہیں، نیز آسمان کے کنارے اور ان میں موجود انوکھی چیزیں اور نشانیاں۔ ’اُفق اعلی‘ اہلِ تصوف کے خاص اصطلاحات میں سے ہے، انہوں نے اس کا ایک فاسد معنی ایجاد کر رکھا ہے، اور وہ : روح کی انتہا کو پہنچنا اور الٰہ (معبود) کے مظہر اور اس کی صفات میں ظاہر ہونا ہے۔ جب مخلوق اس درجہ تک پہنچ جائے تو وہ تمام مخلوق پر فائق ہوجاتی ہے اور اس کے اندر مُردے کو زندہ کرنے وغیرہ جیسی الٰہی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔ صوفیا ’افق اعلی‘ اور ’افق مبین‘ کے مابین فرق کرتے ہیں، چنانچہ ان کے ہاں ’افق مبین‘ سےمراد مقامِ قلب کی انتہا ہے۔ جب کہ اہلِ سنت افق اعلی اور افق مبین کے مابین کوئی فرق نہیں کرتے، یہ دونوں طلوع شمس کے کنارے کے نام ہیں، اور یہ دونوں جبریل علیہ السلام کے نبی ﷺ سے (اپنی حقیقی شکل و صورت میں) ملاقات کے موقع و محل کے دو وصف ہیں اور وہ دونوں بلندی اور وضوح سے عبارت ہیں۔ افق اعلی: مشرق کی سمت میں زمین سے بعید ترین جگہ ہے۔ اس کا افق مبین بھی نام ہے، یہ وہی جگہ ہے جہاں جبریل علیہ السلام اس وقت نمودار ہوئے تھے جب نبی ﷺ نے ان کو دیکھا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ انہیں ان کی اس شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں جس پر اللہ تعالی نے انہیں پیدا فرمایا ہے، تو انہوں نے اپنے آپ کو دو بار دکھایا؛ ایک بار زمین پر جب آپ ﷺ غارِ حرا میں تھے، تو جبریل علیہ السلام مشرق سے نمودار ہوئے اور انہوں نے مشرق سے مغرب تک کی وسعت کو گھیر لیا، اور دوسری بار آسمان میں سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا۔ ’افق اعلی‘ کی اصطلاح کا ذکر عقیدہ میں توحیدِ اسماء وصفات کے باب میں رؤیتِ باری تعالی کے مسئلہ میں بات کرتے وقت آتا ہے۔

الشرح المختصر :


’أُفُق‘: مشرق و مغرب، شمال اور جنوب سبھی اطراف سے روئے زمین کے ساتھ (ملا ہوا محسوس ہونے والا)آسمان کا وہ اعلی حصہ جو نگاہ کے سامنے ظاہر ہوتا ہے یا جہاں تک نگاہ پہنچتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کے اطراف میں اپنی کاریگری اور اپنی تخلیق کے سورج، چاند، ستارے، درخت، پہاڑ، جانور اور دریا وغیرہ جیسے ایسے عجائب وغرائب بیان کیے ہیں، جن سے ہر عقل مند انسان کے لیے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہی (اللہ) اکیلا رب اور معبود ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ تعالی کی نشانیوں میں غور وفکر کرنا جیسے اس کائنات کی ایک مستحکم وباریک نظام کے مطابق تخلیق اور اسے عدم سے وجود میں لانا یہ آفاق کی دلالت سے جانا جاتا ہے، اور یہ اللہ تعالی کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو اللہ سبحانہ وتعالی کی ربوبیت اور اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ قرآن مجید اللہ تعالی کی جانب سے نازل شدہ برحق کتاب ہے۔

التعريف اللغوي المختصر :


اُفُق: کنارے، اطراف۔ اس لفظ کا اصل معنی کسی چیز کے سِروں کے درمیان کا با ہم دور ہونا اوراس کا وسیع اور کشادہ ہونا ہے۔ اس کی جمع آفاقٌ ہے۔