احوال (أَحْوالٌ)

احوال (أَحْوالٌ)


العقيدة التربية والسلوك

المعنى الاصطلاحي :


وہ معانی اور معارف جو دل پر بغیر کسی ارادے اور تکلُّفْ کے وارد ہوتے ہیں تاہم برقرار نہیں رہتے۔

الشرح المختصر :


’أَحْوَال‘ سے مراد علم و معرفت کے وہ درجات ہیں جنہیں اللہ تعالی انسان کے دل میں بغیر کسی تصنع اور تکلف کے پیدا کرتا ہے، جو انسان کے لیے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ اسے اپنی سوچ، خیالات اور احساسات میں کیسا ہونا چاہیے۔ یہ اذکار یا عملِ صالح کا ایک ثمرہ و نتیجہ ہوتا ہے۔ ان احوال میں سے کچھ یہ ہیں: مراقبہ، محبت، خوف اور شوق وغیرہ۔ یہ احوال تا دیر باقی نہیں رہتے۔ اگر باقی رہ جائیں تو پھر یہ 'مقامات' بن جاتے ہیں۔ انہیں 'أحوال' اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ بدلتے رہتے ہیں، برقرار نہیں رہتے۔ بعض اوقات انہیں وجد کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ ان کا وجود دل میں ہوتا ہے۔ اور اگر یہ مضبوط ہو جائیں تو بسا اوقات دل سے چھلک اٹھتے ہیں، جس کے نتیجے میں اعضا و جوارح پر غیر ارادی حرکات ظاہر ہوتی ہیں جیسے رونا وغیرہ۔ صوفی لوگ سالک کے راہِ تصوف میں درجہ بدرجہ ایک مرتبہ سے دوسرے مرتبہ تک پہنچنے کی نشاندہی کرنے کے لیے اس اصطلاح کا باطل انداز میں استعمال کرتے ہیں۔

التعريف اللغوي المختصر :


الأَحْوالُ: یہ حَال اور حَول کی جمع ہے۔ اس سے مراد ہر حرکت کرنے اور تبدیل ہونے والی شے ہے۔ 'حول' کا حقیقی معنی ہے ’کسی شے کا تبدیل اور منتقل ہونا‘۔ کہا جاتا ہے: ”حالَ الشَّيْءُ، حَوْلاً، وتَحَوَّلَ“ یعنی وہ شے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو گئی۔