اصابت، درستگی، مقصد تک رسائی۔ (إِصَابةٌ)

اصابت، درستگی، مقصد تک رسائی۔ (إِصَابةٌ)


أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


قول یا فعل سے مقصود غایت کو پہنچنا۔

الشرح المختصر :


فقہا نے بعض عقود جیسے دوڑ کے مقابلے ، نکاح اور جعالۃ (وہ انعام اور رقم وغيرہ ہے جو كسى كام كرنے پر انسان كو دى جائے) کے انعقاد میں اصابتِ مقصود (مقصد کے حصول) کے امکان کی شرط رکھی ہے۔ یعنی اس کا حصول متوقع ہو، ممتنع یا نادر الوقوع نہ ہو۔ اس لیے اگر ایسی اِصابت کی شرط لگائی ہے، جس کا حصول عادتًا ممکن نہیں ہے، تو عقد فاسد ہو جائے گا؛ اس لیے کہ یہ (عقد) کسی نتیجے تک نہیں پہنچاتا ہے، جب کہ ہر ایک کا مقصد ہدف تک پہنچنا اور عقد وغیرہ کے مقصد کا حصول ہوتا ہے۔

التعريف اللغوي المختصر :


اصابہ یعنی مُراد تک پہنچنا اور اُسے پانا۔ ”مُصیب“ یعنی اپنے مقصد تک پہنچنے والا۔ اِصابہ کی ضد خطا آتی ہے۔ ’اِصابہ‘ کسی شے کو لینے اور اسے حاصل کرنے کو بھی کہتے ہیں۔ اِصابہ اصلاً ”صَوْب“ بمعنی قصد وارادے سے ماخوذ ہے۔ اِصابہ کے معانی میں ادراک، کامیابی اور ایجاد بھی آتے ہیں۔