تعریف کرنے میں مبالغہ آرائی سے کام لینا۔ (الْإِطْرَاء)

تعریف کرنے میں مبالغہ آرائی سے کام لینا۔ (الْإِطْرَاء)


العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


انسان کی تعریف میں حد سے تجاوز کرنا اوراس میں دروغ گوئی سے کام لینا۔

الشرح المختصر :


الإطراء: کسی شخص کی ایسے اسماء اور اوصاف کے ساتھ بڑھا چڑھا کر تعریف کرنا اور اس میں غلو سے کام لینا جن کی شریعت تائید نہیں کرتی ہے اور جو بسا اوقات باطل ہوتے ہیں۔ مثلا نصاری کی عیسی علیہ السلام کی حد سے زیادہ تعریف کرنا کیونکہ ان لوگوں نے عیسی علیہ السلام کی ان اوصاف کے ساتھ تعریف کی جو آپ میں موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ: وہ (عیسی علیہ السلام) تین میں کا تیسرا ہیں، اور یہ کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ لوگ جو باتیں کہتے ہیں ان سے اللہ کی ذات بہت بالاتر ہے۔ اطراء (بے جا تعریف) کا سبب یا تو کسی کی تعظیم ہوتي ہے یا غیر کی محبت۔ اس سے دو طریقوں سے بچا جا سکتا ہے: 1۔ ہر بندے کو اس کا وہ حق دیا جائے جو اللہ نے اسے دیا ہے اور انسانوں کو ان کے صحیح مقام پر رکھا جائے، چنانچہ انہیں ان کے مقام سے بلند نہ کیا جائے اور نہ ہی الوہیت اور ربوبیت کے خصائص میں سے کسی خاصیت سے انہیں متصف کیا جائے۔ 2۔ صحیح محبت اپنا کر بایں طور کہ رسول اللہﷺ، آپ کے صحابہ اور تابعین کی اتباع کی جائے اور بنا کسی کمی و اضافہ کے ان کے راستے پر چلاجائے۔ اضافہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی بغیر کسی دلیل کے عبادت کے امور میں کچھ اضافہ کردے مثلاً ایسی نمازوں اور عیدوں کا ایجاد کر نا جن کی از روئے شریعت کوئی اصل نہ ہو۔ کمی کرنے سے مراد یہ ہے کہ طاقت رکھنے کے باوجود جان بوجھ کر واجبات یا سنن کو ترک کر دیاجائے اور ان کی ادائیگی میں تفریط سے کام لیا جائےجیسے جماعت، حکمران کی اطاعت اور نماز کی سنتوں وغیرہ کو چھوڑ دینا۔

التعريف اللغوي المختصر :


الإطراء: تعریف کرنے میں مبالغہ کرنا اور حد سے تجاوز کرنا۔ جب کوئی شخص کسی کی تعریف میں مبالغہ کرے تو کہا جاتا ہے: أَطْرَى فُلانٌ فُلاناً، يُطْرِيه، إِطْراءً کہ فلاں نے فلاں کی تعریف میں مبالغہ سے کام لیا۔ یہ لفظ دراصل ”الطَرَاوَة“ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے:نرم ہونا اور تازہ ہونا۔ مدح و ستائش میں غلو برتنے کو اطراء کا نام اسی معنی کے اعتبار سے دیا جاتا ہے، کیونکہ تعریف کرنے والا شخص ممدوح کے اوصاف کی یاد تازہ کرتا ہے۔