اغراض ومقاصد (الْأَغْرَاض)

اغراض ومقاصد (الْأَغْرَاض)


العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


افعال و احکام سے مقصود غایات اور حکمتیں۔

الشرح المختصر :


’اغراض‘ سے مراد وہ مقاصد اور حکمتیں ہیں جنھیں اللہ تعالی نے اپنی مخلوق سے اور اپنے امر ونہی سے چاہا ہے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے افعال بے پناہ حکمتِ اور عظیم مقاصد کے پیشِ نظر صادر ہوتے ہیں، یہاں حکمت کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم: وہ حکمت جو اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ دوسری قسم: وہ حکمت جو اس کے بندوں کی طرف لوٹتی ہے، جو ان پر اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جس پر وہ خوش ہوتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ حکمتوں میں سے کچھ تو عوام یا خواص کو معلوم ہوتی ہیں، اور ان میں سے بعض معلوم نہیں ہوتیں۔ لیکن حکمت کے بارے میں علم نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا وجود نھیں ہے۔ یہاں یہ بات جان لینی چاہیے کہ لفظ ”اغراض“ بدعت ہے، وہ قرآن و حدیث میں اللہ کے حق میں وارد نھیں ہوا ہے اور نہ ہی علمائے اسلام اور ان کے پیروؤں نے اس لفظ کا اطلاق اللہ کے لیے کیا ہے۔ کیونکہ اس لفظ میں نقص اور کمی کا شائبہ ہو سکتا ہے، جب کہ اس کی نفی سے حکمت کی نفی سمجھی جا سکتی ہے۔ لھٰذا ایسی صورت میں تفصیل بیان کرنا ضروری ہے۔ بہتر یہ ہے کہ حکمت، رحمت، ارادہ وغیرہ جیسے الفاظ سے تعبیر کی جائے جن کے متعلق نص وارد ہے۔

التعريف اللغوي المختصر :


اغراض یہ ’غرض‘ کی جمع ہے۔ لفظِ ’غرض‘ سے مراد وہ نشانہ ہے جسے ںصب کرکے اس پر تیر پھینکا جائے۔ کہا جاتا ہے: ”أَغْرَضَ يُغْرِضُ إِغْراضًا فَهُوَ مُغْرِضٌ“ یعنی اس نے اپنے قول و فعل کے لیے ہدف مقرر کیا۔ لفظِ ’غرض‘ مقصد وغایت کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔