اہلیت، لیاقت (الأَهْلِيَّة)

اہلیت، لیاقت (الأَهْلِيَّة)


الحديث أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


اہلیت، انسان کی وہ صلاحیت جس سے وہ حقوق حاصل کرتا ہے، واجبات کی ادائیگی اور ان میں تصرفات کرتا ہے۔

الشرح المختصر :


’اہلیت‘ یہ ہے کہ انسان اس قابل ہو کہ اس کے لیے حقوق ثابت ہوں، اس پر واجبات اور لازمی امور عائد ہوں۔ نیز تصرفاتِ قولیہ وفعلیہ کو صادر کرنے کی اس میں قابلیت ہو، بایں طور کہ اس کے تصرفات شرعًا قابلِ قبول ہوں۔ اہلیت کی دو قسمیں ہیں: 1- اہلیتِ وجوب: اس اہلیت کو ’ذمہ‘ سے تعبیر کیا جاتاہے۔ یہ انسان کی وہ صلاحیت ہے جس کی بدولت اس کے حقوقِ شرعیہ کا کسی پر وجوب ہوتا ہے یا کسی دوسرے کے شرعی حقوق اس پر واجب ہوتے ہیں۔ یہ اہلیت محض حیات سے ثابت ہوجاتی ہے۔ 2- اہلیتِ ادا: اس کو ’اہلیتِ معاملہ‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ اہلیت انسان کے اندار اس کے سنِ تمییز کو پہنچنے کے وقت سے پیدا ہوجاتی ہے۔ سن تمییز سات سال ہے جبکہ وہ عقل والا ہو جائے۔ یہ انسان کی وہ صلاحیت ہے کہ اس کی بدولت اس سے حقوق کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے، اس کے اقوال وافعال معتبر ہوتے ہیں اور ان اقوال وافعال پر آثار شرعیہ بھی مرتب ہوتے ہیں۔

التعريف اللغوي المختصر :


الأَهْلِيَةُ: صلاحیت کو کہتے ہیں۔ اسی سے کہا جاتا ہے: ”فُلانٌ أَهْلٌ لِهذا الـعَمَلِ“ یعنی فلاں اس کام کا اہل ہے۔ اس کے یہ معانی بھی آتے ہیں:مستحق ہونا اور (کام انجام دینے کی) طاقت، قدرت اور حسنِ تصرف کا ہونا۔