الظاهر
هو اسمُ فاعل من (الظهور)، وهو اسمٌ ذاتي من أسماء الربِّ تبارك...
کمال اور جمال کے اوصاف کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرنا اور اسے تمام نقائص اور عیوب سے مبرّا ومنزہ قرار دینا۔
تقدِیس: حد درجہ تعظیم کو کہتے ہیں اور کمالِ تقدیس صرف اللہ تعالیٰ کے لیے لائق وزیبا ہے جس کا کوئی شریک نہیں؛ کیوں کہ وہ عظمت وبزرگی کے صفات اور نعوتِ جلال و کمال کا مالک ہے۔ چنانچہ اس کے تمام اسماء اچھے اور اس کے تمام افعال سراپا حکمت ہیں، اور اس کی پوری شریعت عدل اور رحمت ہے، اور اس کی نعمتیں اس کے بندوں پر بھرپور اور وافر ہیں۔ پس وہی اکیلا سب سے زیادہ اور مکمل ترین تقدیس کا مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی میں سے ایک اسم ’القدوس‘ ہے، یعنی وہ ہستی جو اپنی ذات، صفات اور اسما میں کامل اور عظیم ہے، ہر طرح کے عیب اور نقص سے پاک ہے، اور جو اپنے اولیا کے دلوں کو پاک وصاف کرتا ہے اور انھیں علم، ایمان اور نیک عمل کے ذریعے پاکیزہ بناتا ہے۔ البتہ جو بھی اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہے وہ صرف اتنی ’تعظیم‘ کا مستحق ہے جتنا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا مرتبہ ومقام ہے، اور صرف اسی طریقے سے اس کی ’تعظیم‘ جائز ہے جسے اللہ نے اس کی تعظیم کے لیے مشروع قرار دیا ہے۔ جیسے بعض جگہوں اور زمانوں کی ’تعظیم‘ کرنا جس کی تعظیم اور رفعت شریعت میں وارد ہوئی ہے۔ اور یہ ان عبادات کے ذریعہ ہوگی جنھیں اللہ تعالیٰ نے ان میں مشروع فرمایا ہے جنھیں وہ پسند کرتا اور ان سے راضی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر وہ ’تعظیم‘ جو اس مشروع تعظیم سے خارج ہے، وہ حرام ہے جس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے نھیں دی ہے۔
التَّقْدِيسُ: ’تعظیم‘، اسی سے کہا جاتا ہے: ”قَدَّسَ الشَّيْءَ، يُقَدِّسُهُ، تَقْدِيساً“ اس نے اس شے کی تعظیم وتقدیس کی۔ اس کا اصل معنی: ’پاکیزگی‘ ہے، یہ ’منزہ قرار دینے‘ اور ’بری قرار دینے‘ نیز ’ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک قرار دینے‘ کے معنوں میں بھی آتا ہے۔