تنجیز، بغیر کسی تاخیر کے تصرف کا نافذ ہونا (التَّنْجِيزُ)

تنجیز، بغیر کسی تاخیر کے تصرف کا نافذ ہونا (التَّنْجِيزُ)


الفقه أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


بغیر کسی تاخیر کے فوراً تصرف کا نفاذ ہونا، جیسے بغیر کوئی شرط لگائے اور تاخیر کیے فورا طلاق دے دینا۔

الشرح المختصر :


تنجیز: بغیر کسی تاخیر کے فورا تصرّف کا نفاذ عمل میں آنا بایں طور کہ اس کے آثار تصرف کے صادر ہونے کے ساتھ ہی مترتب ہوجائیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی سے کہے: ”أَنْتِ طالِقٌ“ ایسا کہنے پر بیوی کو فورا طلاق ہوجائے گی۔ اس کے مقابل میں تعلیق یا تاجیل ہے۔ چنانچہ اس میں تصرف اسی وقت واقع ہوتا ہے جب وہ شے واقع ہو جائے جس پر تصرف کو معلق کیا گیا ہے، جیسے کہ شوہر کا اپنی بیوی کو یہ کہنا: ”أنْتِ طالِقٌ إذا دَخَلْت الدّارَ“ کہ اگر تو گھر میں داخل ہوگئی تو تجھے طلاق ہے، تو اس صورت میں طلاق اسی وقت واقع ہوگی جب وہ گھر میں داخل ہوجائے۔ تصرفات کی دو اقسام ہیں: 1. جس میں تنجیز شرط ہوتی ہے اور اس میں تعلیق یا تاجیل مقبول نہیں ہوتی، جیسے بہت سارے عقود، مثلاً عقدِ بیع وغیرہ۔ 2. وہ تصرفات جن میں تعلیق و تاجیل ہوسکتی ہے جیسے طلاق وغیرہ۔ تعلیق کا معنی ہے کسی شے کے وقوع کو کسی دوسری شے کے وقوع کے ساتھ مربوط کرنا۔

التعريف اللغوي المختصر :


تنجیز: حاضر ہونا اور جلدی کرنا۔ نیز یہ مکمل کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔