قبضہ میں لینا، تحویل میں لینا (الْحِيَازَةُ)

قبضہ میں لینا، تحویل میں لینا (الْحِيَازَةُ)


الفقه أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


کسی شے کو اس طرح سے قبضے اور تحویل میں لینا کہ اس میں تصرف کرنا ممکن ہوجائے۔

الشرح المختصر :


”حیازہ“ سے مراد ہے کسی شے کو قبضہ میں لینا اور اس کا مالک بننا اور اس میں تصرف کرنا اور اس سے یوں نفع اٹھانا جیسے صاحبِ ملکیت اٹھایا کرتا ہے۔ حیازہ (قبضہ) اس بات کی علامت سمجھا جاتا ہے کہ آدمی قبضہ شدہ شے کا مالک ہے، اگرچہ اس سے ملکیت اس کی طرف منتقل نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ حیازہ (قبضہ) کسى چیز پر حقیقی اختیار (حق) کا نام ہے جسے وہ شخص استعمال کرتا ہے جو کبھی تو اس چیز کا مالک ہوتا ہے اور کبھی ایسا نھیں ہوتا۔ ’حیازہ‘ (کسی چیز پر قبضہ) کئی طرح کے تصرفات اور استعمال سے حاصل ہوتا ہے مثلاً سواری کرنا، رہائش اختیار کرنا اور بیچنا وغیرہ۔ ان تصرفات کے کئی درجات ہیں: ان میں سب سے کمزور تصرف رہائش اور کاشت کاری ہے۔ اس کے بعد منہدم کرنا، تعمیر کرنا، اور درخت لگانا ہے۔ اور اس کے بعد بیچنا، ہبہ کرنا، صدقہ کرنا، آزاد کرنا اور ہر وہ تصرف ہے جسے کوئی شخص اپنے مال میں کرتا ہے۔ ’حیازہ‘ کبھی جائز شرعی طریقہ سے ہوتا ہے اور کبھی ناجائز اور غیر مشروع طریقہ سے، جیسے چوری اورغصب کے ذریعہ۔ نیز حیازہ ملکیت کا ایک سبب بھی بن سکتا ہے اگر کسی نے کسی ایسے مال پر قبضہ کرلیا ہو جو مباح ہو، قبضہ کے وقت اس کا کوئی مالک نہ ہو اور شرعی طور پر اس کا مالک بننا ممنوع بھی نہ ہو۔ اور ایسا حیازہ چار چیزوں میں ہو سکتا ہے جو یہ ہیں: غیرآباد زمین کو آباد کرنا، شکار کرنا، گھاس لینا اور زیرِ زمین پائی جانے والی چیزوں کو لینا، جیسے گڑا ہوا خزانہ۔

التعريف اللغوي المختصر :


الحِیازَۃُ: کسی شے کو ملانا اوراکٹھا کرنا۔ یہ کسی شے کو قبضہ اور ملکیت میں لینے کے معنی میں بھی آتا ہے۔