الطيب
كلمة الطيب في اللغة صيغة مبالغة من الطيب الذي هو عكس الخبث، واسم...
ہر وہ زمین جس میں کفر کے احکام (قوانین) کا غلبہ ہو، اور اس میں مسلمانوں کی حکمرانی اور ان کا زور نہ چلتا ہو۔
’دار الحرب‘ کی تعریف میں اہلِ علم کی دو مختلف رائے ہیں: پہلی رائے: ’دار الحرب‘ وہ دار ہے جس میں مسلمان حاکم کی حکمرانی نہ ہو، نہ ہی اس میں اسلامی احکام نافذ کئے جاتے ہوں، نہ ہی یہاں کے لوگوں اورمسلمانوں کے درمیان کوئی عہد ہو۔ یا یوں کہا جائے کہ وہ زمین جس میں اسلام کا غلبہ نہ ہو اور نہ ہی اس میں اسلامی شریعت کی حکمرانی چلتی ہو۔ یہ جمہور اہلِ علم کی رائے ہے۔ دوسری رائے: یہ ہے کہ غیر مسلموں کی حکومت ہونے سے جگہ ’دار الحرب‘ نہیں بنتی۔ بلکہ کسی بھی سرزمین کو ’دار الحرب‘ قرار دینے کے لیے درج ذیل تین شرائط کا ہونا ضروری ہے: پہلی شرط: وہاں غیر اسلامی احکام کا غلبہ ہو۔ دوسری شرط: اسلامی صوبہ یا سرحد اس سے ملا ہو بایں طور کہ وہاں سے دارالاسلام پر حملہ آور ہونے کی توقع ہو۔ تیسری شرط: یہ ہے کہ مسلمان اور ذمی وہاں اسلام کی وجہ سے مامون نہ ہوں، بلکہ ان کے اپنے معاہدے کی وجہ سے ان کو امان ملا ہو۔ یہ بعض اہلِ علم کی رائے ہے۔ ’دار الحرب‘ اور ’دار العہد‘ میں صرف یہ فرق ہے کہ ’دار العہد‘ اور مسلمانوں کے درمیان امن معاہدہ ہوتا ہے، جب کہ ’دارالحرب‘میں یہ معاہدہ نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ ’دارالحرب ‘سے کسی بھی وقت حملے کی توقع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ باتوں کے اعتبار سے دونوں ایک ہی ہیں اور ’دارالاسلام‘ کے بالمقابل ہیں۔ تاہم ’دار العہد‘، ’دار الحرب‘ سے زیادہ مخصوص ہے؛ اس لیے کہ اس میں اہلِ اسلام اور وہاں کے لوگوں کے مابین معاہدے ہوتے ہیں۔ رہی بات ’دارالاسلام‘ اور ’دار الحرب‘ کے مابین اختلاف کی تو وہ طاقت و اقتدار کے ظہور و غلبہ کے ذریعہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر وہ ملک جس میں اسلام کو طاقت و اقتدار مل جائے وہ ’دارالاسلام‘ ہوگا اور اگر اس میں اسلام کی طاقت و اقتدار کا ظہور نہ ہو تو پھر وہ ’دارالحرب‘ ہوگا۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".