الرءوف
كلمةُ (الرَّؤُوف) في اللغة صيغةُ مبالغة من (الرأفةِ)، وهي أرَقُّ...
کسی ناپسندیدہ قول یا فعل یا ہیئت سے بدشگونی لینا، اور اس کے سبب آدمی کا اس چیز کو ترک کر دینا جس کا اس نے ارادہ کیا تھا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ کامیاب نہیں ہوگا۔
’طیرہ‘: انسان کا بعض برے کلمات کو سن کر ان سے بدشگونی لیتے ہوئے اپنی حاجت سے رک جانا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوگا، مثال کے طور (وہ کسی کو) اے ہلاک ہونے والے!، یا اے برباد ہونے والے!، یا اے خسارا اٹھانے والے! (کہتے ہوئے سنے) اور یہ سن کر وہ خریدنا چھوڑ دے۔ یا کسی دکھائی دینے والی شے جیسے الو، یا لنگڑا یا کانا شخص سے بدشگونی لینا، یا پھر کسی معلوم شے سے بدشگونی لینا جیسے بعض دنوں اور مہینوں سے بدشگونی لینا، مثلاً مہینے کی اکیسویں تاریخ، یا ماہِ صفر سے بدشگونی لینا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ خیر یا شر کے واقع ہونے میں ان کا کوئی عمل دخل ہے۔ بدشگونی کی صورتوں میں سے ایک صورت: زمانۂ جاہلیت میں عرب لوگ پرندوں پر اعتماد کیا کرتے تھے، چنانچہ جب ان میں سے کوئی کسی کام کے لیے نکلتا تو اگر وہ پرندے کو دائیں طرف اڑتا دیکھتا تو وہ اس سے اچھا شگون لیتا اور اپنا سفر اور کام جاری رکھتا۔ اسے وہ لوگ 'سانح' کا نام دیتے تھے، اور اگر وہ دیکھتا کہ پرندہ بائیں طرف اڑ ا ہے تو وہ اس سے بدشگونی لیتا اور واپس لوٹ آتا۔ اسے یہ لوگ 'بارح' کا نام دیتے تھے۔ بسااوقات ان میں سے کوئی اسی مقصد کے لیے پرندے کو بھڑکاتا اور برانگیختہ کرتا تھا۔ چنانچہ اسلامی شریعت نے آکر اس کی ممانعت کر دی اور اسے باطل قرار دیتے ہوئے اس سے روک دیا۔ بدشگونی کی دو قسمیں ہیں: 1۔ وہ بدشگونی جو شرک اکبر کے زمرے میں آتی ہے۔ اس سے مراد کسی شخص کا یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ اس نے پرندے کی جس حالت کا مشاہدہ کیا ہے وہ اس چیز کا موجب ہے جس کا اسے گمان ہے اور اس میں موثر ہے۔ یہ شرکِ اکبر اس لیے ہے کیوں کہ اس میں کائنات کی تدبیر کرنے اور اسے چلانے میں (اللہ کے ساتھ کسی اور کو) شریک ٹھہرانا پایا جاتا ہے۔ 2۔ وہ بدشگونی جو شرکِ اصغر کے زمرے میں آتی ہے۔ اس سے مراد کسی شخص کا یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ اکیلا اللہ ہی متصرف اور مدبر ہے، تاہم وہ کسی شر کے واقع ہونے کے خوف سے اپنے کام میں آگے نہ بڑھے۔ بدشگونی دو اعتبار سے توحید کے منافی ہے: 1- بدشگونی لینے والا اللہ تعالی پر توکل کو چھوڑ کر غیراللہ پر اعتماد کرتا ہے۔ 2- بدشگونی لینے والا ایسے امر سے وابستہ ہوتا ہے جس کی کوئی حقیقت نھیں ہے، بلکہ وہ محض ایک وہم وخیال ہے۔
طیرہ: بد شگونی، کہا جاتا ہے: ’’تَطَيَّرَ بِالشَّيْءِ‘‘ یعنی اس نے فلاں شے سے بدشگونی لی۔ 'طِیرہ' کا لفظ دراصل 'طَیر' سے نکلا ہے جو پرواز کرنے والے جانور (پرندہ) کو کہتے ہیں۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".