الحميد
(الحمد) في اللغة هو الثناء، والفرقُ بينه وبين (الشكر): أن (الحمد)...
قومی یا انفرادی سطح پر زندگی کو غیر مذہب (لادینیت) پر قائم کرنا۔
’علمانیت‘ (لا دینیت، سیکولرزم) ایک ایسا نظریہ ہے جس کا مقصد زندگی کے تمام: سیاسی، اقتصادی، سماجی اور فکری شعبوں میں لوگوں کی توجہ آخرت سے ہٹا کر صرف دنیا پر مرکوز کرنا ہے۔ اس کا ظہور سترہویں صدی میں یورپ میں ہوا۔ اس کے ظہور کا سب سے اہم سبب چرچ کا ظالمانہ رویہ تھا، چاہے یہ ظلم دین سے متعلق ہو بایں طور کہ کنیسہ نے صحیح دین میں تحریف کردی، اللہ کی حلال کردہ اشیا کو حرام کردیا اور حرام کردہ اشیا کو حلال ٹھہرا دیا۔ یا پھر یہ مالی ظلم ہو بایں طور کہ انھوں نے مال و دولت کے حصول کو ممنوع قرار دیے دیا اور لوگوں پر ٹیکس عائد کردیا جیسا کہ تحریف شدہ انجیلوں میں آیا ہے۔ سیکولرزم کے تین ستون ہیں: اول: انسانی توجہ کو صرف دنیا میں محدود کردینا اور زندگی میں مذہب کی حیثیت کو پیچھےکردینا؛ تاکہ وہ انسان کی ذاتی سرگرمیوں میں سے ہو جائے۔ لیکن آخرت کی زندگی چونکہ ایک ماورائے طبیعت شے ہے اس لیے اسے مادی زندگی اور اس کے محسوس قوانین میں اثرانداز ہونے سے یکسر دور رہنا چاہیے۔ دوم: علم، اخلاق اور سوچ کو مذہب کی تعلیمات کی تعمیل کرنے سے دور رکھنا۔ سوم: غیر مذہبی بنیاد پر سیاسی اداروں پر مشتمل ریاست قائم کرنا۔ علمانیت (سیکولرزم) کے کچھ افکار و عقائد یہ ہیں: 1۔ سیاست اور زندگی سے مذہب کی علیحدگی۔ 2۔ فحاشی اور اخلاقی انارکی کو فروغ دینا، خاندان کی بنیاد کو تباہ کرنا اور خواتین کی آزادی جس کا مقصد اسے شرعی احکام سے دست بردار کرنا اور ماکرانہ طریقوں سے اسے اس میں دھکیل دینا ہے۔ 3۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام تہذیب وتمدن سے مطابقت نہیں رکھتا اور پسماندگی کی دعوت دیتا ہے۔ 4۔ ان میں سے کچھ لوگ تو سرے سے اللہ کے وجود ہی کے منکر ہیں۔
العِلْمانِيَّةُ (عین کے زیر کے ساتھ): یہ 'عِلْم کی طرف نسبت ہے جس کا معنی ہے: معرفت اور ادراک۔ ایک اور قول کی رو سے 'علمانيت' (عین کے زبر کے ساتھ) 'عَلما' (عین کے زبر کے ساتھ) کی طرف نسبت ہے جو کہ ایک سریانی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے: عالَم یا دنیا۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".