اہلِ مدینہ کا عمل (عَمَلُ أَهْلِ الْمَدِينَة)

اہلِ مدینہ کا عمل (عَمَلُ أَهْلِ الْمَدِينَة)


أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


وہ عمل جس پر صحابہ یا تابعین یا تبع تابعین کے زمانہ میں مدینہ کے تمام یا اکثر علماء کا اتفاق رہا ہو، خواہ اس اتفاق کا دارومدار کوئی نقلی دلیل ہو یا پھر ان کا اجتہاد۔

الشرح المختصر :


’عملِ اہلِ مدینہ‘ سے مراد وہ عمل ہے جس پر اسلام کے ابتدائی زمانے کی ان تین صدیوں میں جن کو احادیث میں خیر القرون کہا گیا ہے مدینہ کے علما نے اتفاق کیا ہو اور نسلاً بعد نسل اس کے وارث ہوئے ہوں (یعنی ان کے اندر نسلاً بعد نسل چلا آرہا ہو)۔ تاہم عمل اہل مدینہ جمہور علماء کے نزدیک کوئی لازمی اجماع نہیں ہے ہاں جو عمل اہل مدینہ تسلسل کے ساتھ منقول ہو تو اسکے ساتھ دیگر اخبار ہی کی طرح معاملہ کرتے ہیں۔ ’اہلِ مدینہ کا عمل‘ امام مالک بن انس رحمہ اللہ (کے مسلک) کے ان اصولوں میں سے ایک اصل ہے جن پر وہ اعتماد کرتے تھے، یہ ان کے نزدیک خبر واحد پر بھی مقدم ہے، یہ ان معاملات میں ہے جن کا تعلق نقل سے ہے، اس لیے کہ مدینہ رسولﷺ اور آپ کے اصحاب کا وطن تھا اور ان کے درمیان وحی نازل ہو رہی تھی۔ اس کی دو قسمیں ہیں: 1- نقلی: جیسے ان سے منقول صاع، مُد، اذان، نماز کے اوقات اور سبزیوں کی زکاۃ نہ لینے اور دیگر مسائل ہیں جن کی معرفت کا ذریعہ ’نقل‘ ہے اور مدینہ میں تسلسل کے ساتھ ان پر اس طرح عمل رہا ہے کہ اس طرح کی چیز مخفی نہیں رہتی ہے۔ 2- استدلالی: وہ عمل جن پر اہلِ مدینہ اجتہاد کے ذریعہ عمل پیرا ہوئے، اس نوعیت کے مسائل کے بارے میں خود مالکیہ کے مابین اور ان کے علاوہ دیگر مسالک کے ماننے والوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔