مکاشفہ (کشف) (الْمُكَاْشَفَة)

مکاشفہ (کشف) (الْمُكَاْشَفَة)


العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


حجاب کے ما وراء غیبی معانی اور حقیقی امور پر وجودی یا شھودی طور پر مطلع ہونا۔

الشرح المختصر :


’مکاشفہ‘: وہ علوم جنھیں اللہ تعالیٰ انسان کے دل میں پیدا کر دیتا ہے، یا جو دل میں اس کے شہوانی عوارض سے خالی ہونے اور مطلوب کی طرف دل سے متوجہ ہونے کے وقت ڈال دیا جاتا ہے۔ ’کشف‘ صوفیاء کے ہاں معرفت کا ایک ذریعہ ہے، اور ان کے نزدیک یہ وحی پر حاکم وفیصل ہے، بلکہ ان کے ہاں وحی کے ذریعہ سے کسی علمِ خبری پر استدلال نہیں کیا جاسکتا، بلکہ انسان حق کو اللہ کے نور سے پہچانتا ہے جو اس کے دل میں ڈال دیا جاتا ہے، پھر (قرآن وسنت کے) نصوص میں وارد چیز کو اس پر پیش کیا جاتا ہے، چنانچہ جو چیز اس کے موافق ہوتی ہے جس کا انہوں نے نورِ یقین سے مشاہدہ کیا ہے اسے وہ برقرار رکھتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہو اس کی تاویل کرتے ہیں؛ بلکہ کچھ لوگ اس سے آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جن حقائق کی خبر اللہ کے رسول ﷺ نے دی ہے وہ انہیں ’کشف‘ یا ’عقل‘ کے ذریعے آپ ﷺ سے زیادہ کامل طریقے سے جانتے ہیں۔ اہلِ سنت کے ہاں اصطلاح میں ’کشف‘: ایک قسم کی خرق عادت ہے، جیسے کہ ایک شخص وہ چیز سنتا ہے جو دوسرا کوئی نہیں سنتا، یا وہ ایسی چیز دیکھتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھتے، یا وہ ایسی چیز جانتا ہے جو دوسرے نہیں جانتے۔ خواہ یہ وحی اور الہام کے ذریعے سے ہو اور یہ مومن کے لیے ہے - اور یہ بسا اوقات اللہ کی طرف سے اس کے بندہ کے لیے بطورِ کرامت ہوتی ہے -، اور کبھی کبھار نفس کو ایک طرح کا ’کشف‘ حاصل ہوتا ہے، خواہ یہ حالتِ بیداری میں ہو یا نفس کا بدن کے ساتھ تعلق کمزور ہونے کی وجہ سے حالتِ خواب میں ہو، خواہ یہ ریاضت و عبادت کے ذریعہ حاصل ہو یا بغیر ریاضت و عبادت کے۔ یہی ’کشف نفسانی‘ ہے، جو مومن اور کافر کے درمیان مشترک ہے۔ صحیح کشف: یہ ہے کہ انسان اس حق کو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا اور اپنی کتابوں کو نازل کیا، اس طور پر پہچان لے کہ دل اس کا مشاہدہ کرے، چنانچہ اس کے لیے علومِ دین کے وہ اسرار ورموز منکشف ہو جائیں، جو دوسروں پر منکشف نہیں ہوتے، نیز وہ اپنے علم پر عمل بھی کرنے والا ہو۔ تو یہ اولیاء کا ’کشف‘ ہے، اور ایسا کشف ہے جس کی منفعت ظاہر ہے۔

التعريف اللغوي المختصر :


مکاشفہ: ’کشف‘ سے بابِ ’مفاعلہ‘ کا صیغہ ہے، اس کا معنی ظاہر کرنا اور اس پردہ کو ہٹانا ہے جو کسی شے کو ڈھکے ہوئے ہوتا ہے، جب کسی شے کو ظاہر وعیاں کر دیا جائے تو کہا جاتا ہے: ”كَشَفْتُ الشَّيْءَ، أكْشِفُهُ كَشْفاً“ کہ میں نے اس شے کو ظاہر کردیا۔