فضل العناية بالقرآن
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس مؤمن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، چکوترے جیسی ہے، جس کی خوش بو بھی پاکیزہ ہے اور مزہ بھی پاکیزہ ہے اور اس مؤمن کی مثال جو قرآن نہ پڑھتا ہو،کھجور جیسی ہے، جس میں کوئی خوش بو نہیں ہوتی، لیکن مٹھاس ہوتی ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، ریحانہ (پھول) جیسی ہے، جس کی خوش بو تو اچھی ہوتی ہے، لیکن مزہ کڑوا ہوتا ہے اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا، اس کی مثال اندرائن جیسی ہے، جس میں کوئی خوش بو نہیں ہوتی اور جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے۔"  
عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «مثَلُ المؤمن الذي يقرأ القرآن مَثَلُ الأُتْرُجَّةِ: ريحها طيب وطعمها طيب، ومَثَل المؤمن الذي لا يقرأ القرآن كمَثَلِ التمرة: لا ريح لها وطعمها حُلْوٌ، وَمَثل المنافق الذي يقرأ القرآن كمثل الريحانَة: ريحها طيب وطعمها مُرٌّ، وَمَثَل المنافق الذي لا يقرأ القرآن كمثل الحَنْظَلَةِ: ليس لها ريح وطعمها مُرٌّ».

شرح الحديث :


"قرآن پڑھنے والے مؤمن کی مثال" یعنی اس کی شخصیت غیر معمولی اوصاف کی حامل ہوتی ہے؛ دل کی پاکیزگی، ایمانی پختگی ،قرآن مجید کی تلاوت سے سکون وراحت کا احساس، نیز لوگوں کا اس کی آواز سے راحت کا احساس، اس کی سماعت سے ثواب حصول اور اس سے فیض یابی (یہ سب اس کی شخصیت کے شان دار پہلو ہیں)۔ اس لیے قرآن پڑھنے والا مؤمن سراپا خیر ہے؛ اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔ آپ ﷺ نے اپنے قول : "يقرأ" یعنی پڑھتا ہے کے لفظ کا انتخاب یہ بتانے کے لیے کیا کہ وہ قرآن اس طرح بار بار اور لگاتار پڑھتا ہے کہ یہ اس کی اس کی عادت و فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: " چکوترے جیسی ہے، جس کی خوش بو بھی پاکیزہ ہے اور مزہ بھی پاکیزہ ہے" چنانچہ لوگ اس کی مٹھاس و شیرینی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس کی خوش بو سے سکون و راحت محسوس کرتے ہیں۔ یہاں بطور خاص 'چکوترے' کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ یہ تمام ممالک میں پائے جانے والے بہترین پھلوں میں سے ایک ہے؛ یعنی ایسے میوہ جات میں، جن سے مقصود ان کی خوش بو ہوتی ہے۔ مطلق میوہ جات میں نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ دل کشی، عمدہ و پاکیزہ غذائیت، چھونے میں گدازپن اور نگاہوں کو بھانے والی رنگت جیسی گوناگوں خوبیوں و خاصیتوں کا حامل ہے۔ اور "اس مؤمن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، کھجور جیسی ہے، جس میں خوش بو تو نہیں ہوتی، لیکن ذائقہ میٹھا ہوتا ہے" چنانچہ اس مؤمن کا ایمان کے وصف سے متصف ہونا ایسے ہے، جیسے کھجور کا مٹھاس سے۔ دونوں کا وصف جامع باطنی چیز ہے کہ کھجور میں خوش بو نہیں ہوتی جسے سونگھ کر لوگ لطف اندوز ہوں اور یہ مؤمن بھی قراءت قرآن مجید کا اہتمام نہیں کرتا، جس کی سماعت سے لوگ لذت و سرور محسوس کریں۔ لہٰذا قرآن مجید کی قراءت کرنے والا مؤمن اس سے بدرجہا بہتر ہے، جو قرآن نہیں پڑھتا۔ اور "نہیں پڑھتا" کے معنی ہیں، اسے سیکھتا نہیں ہے۔ ”اور اس منافق کی مثال جو قرآن مجید کی قراءت کرتا ہے“ جب کہ اس کا باطن، ایمان کی دولت سے خالی و بے بہرہ ہوتا ہے،تاہم لوگ، اس کی قراءت سے محظوظ ہوتے ہیں؛ کیوں کہ منافق کی شخصیت ہی سراپا گندگی ہوتی ہے، اس میں کوئي خیر نہیں ہوتی۔-منافق اس شخص کو کہتے ہیں جوخود کو مسلمان ظاہر کرے، لیکن اپنے دل میں کفر کی تاریکیاں چھپائے پھرے- والعیاذ باللہ! کچھ منافق ایسے ہوتے ہیں، جو قرآن مجید کی ترتیل و تجوید کے ساتھ بہترین تلاوت کرتے ہیں، لیکن ان کے دلوں میں نفاق بھرا رہتا ہے۔ العیاذ باللہ۔ اور آپﷺ کے قول " اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، ریحانہ (پھول) جیسی ہے، جس کی خوش بو تو اچھی ہوتی ہے، لیکن ذائقہ کڑوا ہوتا ہے" کے معنی یہ ہیں کہ اس پھول کی عمدہ خوش بو، اس کی قراءت کے مشابہ ہےاور اس کے کڑواہٹ، اس کے کفر کے مشابہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ باطن کی خباثتوں اور فاسد نیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ اور آپ ﷺکے قول "اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا " کے معنی یہ ہے کہ اس کا باطن، ایمان کی دولت سے خالی ، اس کا ظاہر ہر قسم کے منافع سے بے بہرہ اور اس میں ہر قسم کا شر و ضرر موجود ہوتا ہے۔ اور آپ ﷺ کے قول "اس کی مثال اندرائن جیسی ہے، جس میں کوئی خوش بو نہیں ہوتی اور جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے" میں اندرائن کی خوش بو کی نفی کو منافق میں خوش بو کی نفی سے مشابہت دی گئی ہے؛ کیوں کہ اسے قرآن مجیدکی تلاوت بھی نصیب نہیں کہ جس سے (کم از کم) دیگر لوگ لطف اندوز ہوں۔ اس کے شیرین ذائقے کی نفی کو اس کے ایمان کی نفی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ الغرض اس حدیث میں نبی ﷺ نے مؤمن اور منافق کے لیے مثالیں بیان فرمائیں اور اللہ عز وجل کی کتاب کی نسبت پائے جانے والے لوگوں کی مختلف اقسام واضح فرمائیں۔ اس لیے اے میرے مسلم بھائی! اس بات کی خوب حرص و طمع رکھو کہ تمھارا ان مؤمنین میں شمار ہوجائے، جو قرآن مجید کی قرات میں مشغول رہتے ہیں اور اور اس کا بھرپورحق ادا کرتے ہوئے، اس کی تلاوت کرتے ہیں؛ تاکہ آپ بھی اس چکوترے کی مثال کے حق دار ہوجائیں، جس کی خوش بو عمدہ ہوتی ہے اور اس کا ذائقہ بھی شیریں ہوتا ہے۔ واللہ المؤفق۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية